اس اتحاد کا خاتمہ ضروری ہے

اس اتحاد کا خاتمہ ضروری ہے
قارئین کے علم میں ہو گا کہ میں ہمیشہ سے عدالت اور اسٹیبلشمنٹ کے 'غیر مقدس' اتحاد کا ناقد رہا ہوں۔ میری پختہ رائے ہے کہ اس اتحاد نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہینچایا ہے۔ ہر ذی شعور پاکستانی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ایک فریق کی جانب سے ہر اس سیاستدان کے خلاف خفیہ ایجنسیوں کی ذریعہ مہم چلائی گئی جو سویلین بالادستی کیلئے کمربستہ ہوا اور عدالت نے اسے نشان عبرت بنانے میں مکمل تعاون کیا۔

پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان کیلئے خدمات سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن ان کو ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ یہ نہیں کہ بھٹو فرشتہ تھے اور ان سے کوئی غلطی نہیں ہوئی، یقینا تیسری دنیا کے لیڈر ہونے کی وجہ سے ان سے بھی کئی انسانی کوتاہیاں ہوئیں لیکن ایک شکست خوردہ اور بکھرے ہوئے پاکستان کو یکجا کرنا ہی انکا بہت بڑا کارنامہ تھا، غیر ممالک میں غریب عوام کیلئے روزگار کے دروازے کھولنا، پاسپورٹ کو ہر شہری کا بنیادی حق بنانا۔ اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اجلاس بلا کر پاکستان کی حیثیت کو دنیا سے تسلیم کر وانا، ملک کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنا کوئی معمولی بات تھی۔ بھٹو کے ساتھ جو ظلم ہوا کیا اس میں ہمارے یہ دونوں ادارے شامل نہیں تھے۔

نواز شریف دوسری مثال ہیں۔ پنجاب کا وزیر اعلی بننے کے بعد انہوں نے صوبے میں جو کام کئے وہ جھٹلائے نہیں جا سکتے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے پہلی موٹروے لاہور اسلام آباد کے درمیان بنائی اور آج سارا ملک موٹر ویز سے منسلک ہو گیا ہے۔

کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور اسلام آباد میں جدید ہوائی اڈے تعمیر کئے۔ ائیر پورٹس پر گرین چینل متعارف کر وا کر مسافروں کو کسٹم کی چیرہ دستیوں سے  نجات دلائی۔ ٹیلی فون جو آٹھ اور دس سال میں لگتا تھا وہ اب فارم جمع کروانے کے اگلے ہی دن لگ جاتا ہے۔ پاکستان میں موبائل فون بھی نواز شریف ہی کے دور میں متعارف ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے شروع کئے ایٹمی پاکستان کو دنیا سے متعارف کر وانے کا سہرہ بھی نواز شریف کے ہی سر ہے۔ چین سے جتنے بھی منصوبے چاہے وہ دفاعی نوعیت کے ہوں یا عوامی فلاح کے سب نواز شریف کے ہی دور میں ہوئے۔ تازہ ترین سی پیک ہے جو پاکستان کیلئے گیم چینجر ہے۔ اندھیروں اور دہشتگردی میں ڈوبے ملک کو کس نے روشنیاں اور امن دیا لیکن پھر نواز شریف کیساتھ کیا ہوا۔ کیا اس میں بھی مندرجہ بالا ادارے ملوث نہیں تھے۔

آج اگر چیف جسٹس ماضی کی عدلیہ سے براٗت کا اعلان کر رہے ہیں اور عدالت عظمی ماضی کی غلطیوں سے تائب ہو کر نئے دور میں داخل ہونے کی کوشش میں ہے تو اسکا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس کے اعلان کے بعد قوم منتظر ہے کہ دوسرے چیف بھی اپنے ماضی سے معذرت کر کے آئندہ آئین میں دی گئی ذمہ داریاں ہی نبھائینگے کیونکہ اب ہم مزید جگ ہنسائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

یقین رکھیں اگر ان دونوں اداروں کا 'غیر مقدس' اتحاد ٹوٹ گیا تو پاکستان کی ترقی کے راستے کھلے ہیں بصورت دیگر دائروں کا سفر جاری رہے گا۔

 

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔