محصولات کا سیاست زدہ نظام خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے

اگر 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں عوام کی حمایت یافتہ حکومت 15 ملین انتہائی دولت مند افراد کو انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے اور تمام شعبہ جات پر یکساں سیلز ٹیکس نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہمارے مالیاتی خسارے کا دیرینہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

محصولات کا سیاست زدہ نظام خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے

پاکستان میں انکم ٹیکس کا خودتشخیصی نظام کیوں ناکام ہوا؟ مغرب میں جمہوری ممالک کے لوگ جانتے ہیں کہ ٹیکس ادا کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ انہیں ریاست تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، انکم سپورٹ، سوشل سکیورٹی، بے روزگاری الاؤنس، پنشن، ہاؤسنگ وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے، لیکن پاکستان میں عوام کو ایسا کچھ بھی نہیں ملتا۔ بلکہ آبادی کی اکثریت کو تو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا سوال کہ خودتشخیصی ٹیکس کا نظام کیوں ناکام ہوا، کا یہی جواب ہے۔ اگرچہ پاکستانیوں کا شمار دنیا میں انسانی بھلائی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی اقوام میں ہوتا ہے لیکن وہ حکومت کو ٹیکس دینا رقم کا زیاں سمجھتے ہیں۔

2023 میں جن افراد نے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے، ان کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف جن افراد پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا گیا، ان کی تعداد 12 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ صورت حال ایک ایسے ادارے کے غیر مؤثر ہونے کی عکاسی کرتی ہے جس کے سٹاف کی تعداد 22 ہزارسے زائد ہے۔ ایف بی آر کے پاس آڈٹ کے جدید طریقوں اور مؤثر ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم کے نفاذ کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ دولت مند اور طاقتور افراد چالاک ٹیکس مشیروں کی مدد سے ٹیکس قوانین کو آسانی سے چکما دے لیتے ہیں۔ آمدنی ظاہر نہ کرنا، کم آمدنی ظاہر کرنا اور سیلز ٹیکس اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی چرانا پاکستان میں معمول کی بات ہے۔

ماضی میں قائم ہونے والی مختلف فوجی اور سول حکومتوں نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے بجائے انہیں ٹیکس میں مزید چھوٹ دینے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے مواقع فراہم کیے تا کہ ان کی سیاسی حمایت حاصل رہے۔

ایف بی آر کی ناکامی کے دو پہلو ہیں؛ اول یہ کہ یہ ادارہ بھاری بھرکم آمدنی اور اثاثے رکھنے اور شاہانہ زندگی بسر کرنے والے افراد سے واجب الادا انکم ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہا اور اس کی وجہ سے کالے دھن پر مبنی متوازی معیشت وجود میں آ گئی جو پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ لوگوں کو خودتشخیصی نظام کے تحت درست، قابل ادا ٹیکس جمع کرنے پر راضی نہ کر سکا۔ اس کی وجہ سے اپنے اخراجات، جن میں بہت سے غیر ضروری بھی ہیں، چلانے کے لیے ریاست لامتناہی قرضے لینے کے شیطانی چکر میں پھنس گئی۔ دوسری طرف عوام بھی ضروری اور بنیادی سہولتوں سےمحروم رہے۔ ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران یہ خسارہ 8.5 ٹریلین روپے تک پہنچ جائے گا کیونکہ محض قرضوں پر سود کی ادائیگی 8.5 ٹریلین روپے تک پہنچ جائے گی جبکہ بجٹ میں صرف 7.3 ٹریلین روپے کا تحمینہ تھا۔ چار مرتبہ وزیر خزانہ رہنے والے اسحاق ڈار اور ان کی معاشی ٹیم کی نالائقی اور ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟

نااہل ٹیکس مشینری کو فری ہینڈ دینے، ٹیکس چوروں، قومی دولت لوٹنے اور کالے دھن کو سفید بنانے والوں کو خوش کرنے والی پالیسیاں معاشرے اور معیشت کے ہر پہلو پر منفی اثرات ڈال رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے ایک طرف قوم قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے تو دوسری طرف دولت کے بل بوتے پر وفاداریاں خرید کر توانا ہوتا ہوا سیاسی طبقہ جمہوریت کے پروان چڑھنے کی راہیں مسدود کر رہا ہے۔

عام شہری کے لیے یہ صورت حال انتہائی مایوس کن ہے جبکہ معیشت گراوٹ کا شکار اور برآمدات کا حجم سکڑ رہا ہے۔ ان حالات میں بیمار معیشت کی بحالی کے لیے نہ تو سیاسی اور عسکری قیادت اور نہ ہی فنانس منسٹری چلانے والے نام نہاد معاشی ماہرین کے پاس کوئی قابل عمل اور جاندار معاشی منصوبہ ہے۔

جیسا کہ ان کالموں میں بارہا ذکر کیا جا چکا ہے کہ وفاقی سطح پر ہم 16 ٹریلین روپے کا ٹیکس پوٹینشل رکھتے ہیں تاہم گزشتہ سات برسوں کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس کی وصولی کے بہت کم اہداف دیے جا رہے ہیں اور ستم یہ کہ ایف بی آر ان اہداف کے حصول میں بھی ناکام رہتا ہے۔ مالی سال 2022-23 میں یہ 8 ٹریلین روپے اکٹھے کرنے میں بھی ناکام رہا۔ ریفنڈز کو روکنے اور تمام تر منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد یہ بمشکل 7.169 ٹریلن روپے حاصل کر سکا۔

پوٹینشل کے مطابق ٹیکس کی وصولی یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایف بی آر پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرے، کالے دھن سے بنائی گئی جائیداد سختی سے ضبط کرے اور غیر دستاویزی معیشت پر کاری ضرب لگائے۔ ایک جمہوری حکومت کا اولین فرض ٹیکس وصول کرنے والے ادارے کو سیاسی وابستگیوں سے پاک کرتے ہوئے پیشہ ورانہ بنیادوں پر فعال بنانا ہے تاکہ معاشرے میں تمام سطحوں پر جائز اور منصفانہ ٹیکسز کی وصولی کی جا سکے۔

پاکستان میں دولت مند افراد یا تو ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں یا پھر وہ اپنی درست آمدنی اور اثاثوں کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ رقم کی کمی پوری کرنے کے لیے ریاست بالواسطہ ٹیکسز لگاتی ہے۔ ان ٹیکسز کے نتیجے میں غریب لوگ، جن کی معاشرے میں تعداد زیادہ ہوتی ہے، زیر بار آ جاتے ہیں۔ ظلم اور ستم کی انتہا ہے کہ وہ طبقہ جس کی آمدنی قابل ٹیکس حد یعنی 6 لاکھ روپے سے کم ہے، پر ودہولڈنگ ٹیکس اور دیگر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔

ان حالات میں عوام کی صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقوم حاصل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اشیائے تعیشات اور تمباکو کی مصنوعات پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرنا چاہئیے۔ ایسے اقدامات معاشرے میں غیر پیداواری اخراجات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ عوام کو ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم، ہاؤسنگ کی سہولیات بہتر بنانے اور ماحول کی حالت بہتر بنانے کے لیے خصوصی سرچارجز، جیسا کہ کاربن ٹیکس اور زیادہ آبادی کے ٹیکسز عائد کیے جائیں۔ نیشنل ریونیو اتھارٹی کے ذریعے تمام اشیا اور خدمات پر ملک بھر میں یکساں شرح یعنی 8 فیصد کے حساب سے سیلز ٹیکس وصول کیا جائے۔ یہ اقدامات جی ڈی پی کی شرح کے مطابق ٹیکس کے حجم کو بہتر بنائیں گے۔

اقتدار پر فائز افراد کا کہنا ہے کہ یہ مسائل گذشتہ 76 برسوں سے چلے آ رہے ہیں، چنانچہ انہیں چند ماہ، بلکہ 5 سال (جو کہ ایک حکومت کی آئینی مدت ہوتی ہے) میں بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے سامنے اصل مسئلہ طاقت ور سرکاری افسران سے نمٹنا ہے۔ ان افسران میں سے اکثر نااہل اور بدعنوان ہیں لیکن حکومت خود کو ان کے سامنے بے بس پاتی ہے۔ دوسری طرف ان افسران کا مؤقف ہے کہ جب حکومت خود ٹیکس میں چھوٹ دے کر طاقتور حلقوں کو مزید تقویت دیتے ہوئے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں لگی رہے تو بیوروکریسی کچھ نہیں کر سکتی۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بدعنوان سیاست دانوں اور سرکاری افسران کا گٹھ جوڑ ہے۔ یہ دونوں دھڑے ایک دوسرے کے مفاد کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر منتخب نمائندے عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو وہ قانون سازی کرتے ہوئے ناجائز دولت سے خریدے گئے اثاثے ضبط کر لیں۔ ایک مرتبہ اگر یہ دلیرانہ قدم اٹھا لیا گیا تو مالیاتی خسارے کا سنگین مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ایک مرتبہ جب سیاسی اشرافیہ ٹیکس ادا کرنا شروع کر دے گی تو سرکاری افسروں اور تاجروں کے پاس قانون کی پابندی نہ کرنے کا کوئی بہانہ باقی نہیں رہے گا۔ اگر 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں عوام کی حمایت یافتہ حکومت 15 ملین انتہائی دولت مند افراد کو انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے اور تمام شعبہ جات پر یکساں سیلز ٹیکس نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہمارے مالیاتی خسارے کا دیرینہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس منزل کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ٹیکس کی چوری اور ٹیکس کے نظام میں منہ زور بدعنوانی کو لگام ڈالیں۔

ٹیکس کے نظام میں اصلاح کا نقطۂ آغاز افسرشاہی کے کنٹرول کردہ ایف بی آر کی تحلیل سے کیا جائے۔ اس کی جگہ نیشنل ریونیو اتھارٹی قائم کی جائے جس میں 'آل پاکستان ریونیو سروسز' کے تحت چاروں صوبوں کی نمائندگی ہو۔ اسے روایتی افسرشاہی، جو ٹیکس کے جدید طریق کار سے لاعلم ہے، کے حوالے نہ کیا جائے۔ اس نئی اتھارٹی کو تمام ٹیکسز جمع کرنے کا اختیار دیا جائے اور اسے آزاد اور خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹرز چلائے جیسا کہ کینیڈا اور بہت سی ہماری طرح کی وفاقی ریاستوں میں رائج ہے۔

ماضی میں حکمران سیاسی جماعت کا ہیڈکوارٹر ایف بی آر چلاتا رہا ہے۔ ٹیکس کے نظام میں بامعنی اصلاحات کے لیے سب سے ضروری چیز ٹیکس وصول کرنے والے ادارے کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا ہے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔