”سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی خفیہ ہوتی ہے تو اس کی چیزیں باہر کیسے آئیں“؟

”سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی خفیہ ہوتی ہے تو اس کی چیزیں باہر کیسے آئیں“؟
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ حامد خان ایڈدوکیٹ نے استدعا کی کہ اکتیس اکتوبر کو سپریم کورٹ بار کے الیکشن ہیں۔ دوسرا آزادی مارچ کی وجہ سے وکلاء اسلام آباد نہیں پہنچ سکیں گے، سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کی جائے۔

اٹارنی جنرل نے کیس کو ملتوی کرنے کی مخالفت کی جس پر عدالت نے حامد خان کی استدعا مسترد کردی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر التواء سے ادارے کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2017ء تک میرے موکل نے اپنی فیملی کو کوئی تحفہ نہیں دیا۔ درخواست گزار نے کوئٹہ میں جائیداد فروخت کی اور ان کے داماد نے قصور میں جائیداد خریدی۔ 10 مئی 2019ء کو درخواست گزار کی ٹیکس تفصیلات سے متعلق اسسٹنٹ کمشنر ضیاء احمد بٹ کو خط لکھا گیا، اسی روز کمشنر ٹیکس نے شہزاد اکبر کو خط بھیجا۔ وزیراعظم کے پاس جانے سے پہلے ہی شکایت کنندہ کی شکایت کی تفتیش شروع کی گئی۔

آج کی سماعت پر صحافی مطیع اللہ جان کی رپورٹ دیکھیں:


منیرملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز کے 7 مارچ کے فیصلے کے بعد حکومتی اتحادیوں کے اعتراضات آنا شروع ہوئے۔ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے 10 اپریل کو ایسٹ ریکوری یونٹ میں نامکمل درخواست اور کچھ دستاویزات دیں، جن کا بعد میں پوچھا نہیں گیا کہ یہ دستاویزات کہاں سے حاصل کیں۔

چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ نے خط کے ذریعے ایف بی آر سے درخواست گزار کی فیملی کی تفصیلات مانگیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ دهرنا کیس اور نظرثانی درخواستوں کے دوران آپ کے موکل کی جاسوسی کی گئی۔ جس پر منیر ملک نے  کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا جائیداد کی چھان بین کے دوران درخواست گزار یا ان کی فیملی نے برطانیہ کا دورہ کیا تھا؟ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ درخواست گزار کی فیملی لندن میں رہائش پذیر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ درخواست گزار کے خلاف تحقیقات وزیراعظم کے دفتر سے شروع ہوئیں۔ منیر اے ملک نے کہا کہ جی بلکل ایسا ہی ہے۔

منیر ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزارت قانون کی طرف سے ریفرنس تیار کر کے صدر کو بهجوایا گیا۔ 23 مئی کو سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بهیجا گیا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر صدر نے ریفرنس بهیجوایا حالانکہ وزیراعظم صدر کو براہ راست ہدایت نہیں دے سکتے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف شکایت کی صورت میں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی واحد فورم ہے۔ صدراتی ریفرنس میں الزام نہیں لگایا گیا کہ جائیداد براہ راست یا بے نامی درخواست گزار کی ہے۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی نے اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہیں کی۔ ریفرنس میں یہ شامل نہیں کیا گیا کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت ہیں، اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ ریفرنس میں کرپشن اور بد دیانتی کا الزام نہیں لگایا سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی خفیہ ہوتی ہے تو اس کی چیزیں باہر کیسے آئیں؟ درخواست گزار کے خلاف سوچ سمجھ کر منصوبہ چلایا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر ملک کے دلائل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ نے اچھے دلائل دیئے ہیں، جس کے بعد کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ منیر ملک کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔