Get Alerts

پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی میں ہیرامنڈی کی لڑکیوں کا کتنا ہاتھ ہے؟

پاکستان فلم انڈسٹری کو عروج بخشنے میں بھی بازارِ حُسن کی لڑکیوں کا ہاتھ ہے اور اس کے زوال میں بھی۔ لیکن لولی وڈ کی تباہی کی تمام تر ذمہ داری ان لڑکیوں پر ڈالنا زیادتی ہے۔ ویسے بھی گنڈاسا کلچر شاید لولی ووڈ کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی میں ہیرامنڈی کی لڑکیوں کا کتنا ہاتھ ہے؟

کیا لاہور کی ہیرا منڈی اور دیگر شہروں کے بازارِ حُسن سے آئی لڑکیوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو تباہ کیا؟ یہ ہے وہ سوال جس کا عام آدمی سمیت بڑے بڑے فنکار بھی ہاں میں جواب دیتے ہیں۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا پاکستانی فلم انڈسٹری میں بازارِ حسن کی لڑکیاں بہت بعد میں آئیں؟ یا پاکستان بننے سے پہلے سے ہی بازارِ حسن فلم انڈسٹری کو ہیروئنز مہیا کرتا رہا ہے؟ اور پاکستانی فلم انڈسٹری پر بازارِ حسن سے آئیں کن کن ہیروئنز نے راج کیا ہے؟

سینیئر اداکار خواجہ سلیم نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو ہیرا منڈی سے آنے والی لڑکیوں نے تباہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرانے دور میں نیئر سلطانہ، وحید مراد، محمد علی، درپن اور فردوس جیسے پڑھے لکھے لوگ لولی وڈ کا حصہ تھے۔ مگر بعد میں ہیرا منڈی کی لڑکیوں نے ان سب کی جگہ لے لی۔ یہ لڑکیاں اپنے ساتھ اپنے گاہک اور دلال بھی لائیں۔ یوں فلم سٹار کی چھاپ لگنے سے ان کا ریٹ بڑھ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ ان لڑکیوں نے لولی ووڈ پر قبضہ جما لیا اور پروڈیوسرز بھی گندے ڈانس اور فحش گانوں کی ڈیمانڈ کرنے لگے۔

لیکن یہ بات کسی حد تک تو درست ہے لیکن مکمل ٹھیک نہیں۔ اور وہ ایسے کہ خواجہ سلیم نے فردوس کا بھی نام لیا۔ حالانکہ فردوس کا تعلق بھی بازارِ حُسن سے ہی تھا۔ ہاں پڑھے لکھے لوگ نہیں آئے فلم انڈسٹری میں اور اس لیے یہ زوال پذیر ہو گئی، یہ بات درست ہے۔ رہی بات پرانے وقتوں کی تو میڈم نورجہاں پاکستان بننے سے بھی پہلے سے فلموں کی زینت بن رہی تھیں۔ نور جہاں کا تعلق بھی بازارِ حسن سے ہی تھا۔ ان کے علاوہ صبیحہ خانم، انجمن، ممتاز، آسیہ، نادرہ، نیناں، بابرہ شریف، ریما، نیلی، شاہدہ مِنی، کنول، سپنا، گوری، شکیلہ قریشی، سلونی، زمرد، بہار، صائمہ اور ثنا وغیرہ بھی بازارِ حُسن ہی کی پیداوار ہیں۔ کچھ کا تعلق لاہور کی ہیرا منڈی سے ہے تو کچھ کا ملتان کے بازارِ حُسن سے۔ ان میں نئی، پرانی سب ادکارائیں شامل ہیں۔ سنگرز میں فریدہ خانم، ناہید اختر اور اقبال بانو وغیرہ بھی اسی بازار کی دَین ہیں۔

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو عروج بخشنے میں بھی بازارِ حُسن کی لڑکیوں کا ہاتھ ہے اور اس کے زوال میں بھی۔ لیکن لولی وڈ کی تباہی کی تمام تر ذمہ داری ان لڑکیوں پر ڈالنا زیادتی ہے۔ ویسے بھی گنڈاسا کلچر شاید لولی ووڈ کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے اوراس کلچر کا آغاز سلطان راہی سے ہوا تھا۔ بعد میں شان اس کلچر کے وارث بنے اور فلم انڈسٹری کو تباہ کر کے ہی دم لیا۔

لیکن لولی ووڈ میں پڑھے لکھے لوگ آنا کیوں بند ہو گئے تھے؟ تو اس کی ایک وجہ واقعی بازارِ حُسن ہی کی لڑکیاں ہیں۔ جب ان لڑکیوں کی بھرمار ہوئی تو اچھے گھرانوں کی لڑکیوں نے فلم انڈسٹری میں آنا چھوڑ دیا تھا۔ اور چونکہ اچھے گھرانوں کی لڑکیاں فلم انڈسٹری میں نہیں آ رہی تھیں اس لیے بازارِ حُسن سے سپلائی مزید بڑھ گئی تھی۔ یعنی ایک Vicious Cycle چل پڑا تھا۔ بی اور سی کلاس ایکٹریسز اور ایکسٹراز تو تقریباً 100 فیصد ہی بازارِ حُسن سے آ رہے تھے۔

مگر یہاں مرد اداکاروں کی بات کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ مرد ایکٹرز کا راج رہا ہے۔ ہیروئنز کی کبھی اتنی اہمیت نہیں رہی۔ اس کے باوجود صرف ہیروئنز کو اس انڈسٹری کی تباہی کی ذمہ دار قرار دینا زیادتی ہے۔ ویسے بھی سنیما گھروں کی کمی اور پھر بندش، پرانی ٹیکنالوجی پہ انحصار، حکومتی پالیسیز اور دیگر بہت سارے عوام نے مل کے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو برباد کیا۔ پہلے سال میں کم از کم 100 فلمیں ریلیز کی جاتی تھیں اور اب بمشکل 2 چار۔ پہلے فلم انڈسٹری کو بازارِ حسن کی ایکسٹینشن کہا جاتا تھا اور اب بچی کھچی انڈسٹری ڈرامہ انڈسٹری کی ایکسٹینشن ہے۔ فرق بس یہی ہے کہ بازارِ حسن کی ایکسٹینشن کامیاب تھی مگر ڈراما انڈسٹری کی ایکسٹینشن بری طرح ناکام ہے۔