ہے بندگی خدا کی اطاعت رسولﷺ کی

ربیع الاول کا مہینہ انسانی تہذیبوں کے سنگم میں حسن کی آماجگاہ کی ضمانت ہے۔ یہ ماہ مبارک دنیا کی بہترین یادوں کو زندہ رکھنے کا سببِ عظیم ہے۔ اس ماہ کی یادوں کی تازگی ہر دور کے مسائل کو حل کی قوت عطا کرتی ہے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے حضرت محمد رسول اللہﷺ کا عشق غیر فانی دولت بن چکا ہے۔ مسلمان اس محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور 12 ربیع الاول کے موقع پر مختلف طریقے سے اظہار مسرت کرتے ہیں۔

ہے بندگی خدا کی اطاعت رسولﷺ کی

وہ حبیب رب شہر دوسرا وہ شعور و فکر کی آگہی

وہی نور حق وہی شمع جان وہی کائنات کی روشنی

کبھی اہل ذوق میں چھڑ گیا جو بیان سیرت مصطفیﷺ

مجھے یوں لگا کوئی روشنی میرے قلب و جاں میں اتر گئی

بجز ان کے ہے کوئی اور بھی جو ہو جلوہ گر سر لامکاں

نہ ملائکہ کا گزر جہاں نہ پہنچ سکا کوئی آدمی

ربیع الاول کا مہینہ انسانی تہذیبوں کے سنگم میں حسن کی آماجگاہ کی ضمانت ہے۔ یہ ماہ مبارک دنیا کی بہترین یادوں کو زندہ رکھنے کا سببِ عظیم ہے۔ اس ماہ کی یادوں کی تازگی ہر دور کے مسائل کو حل کی قوت عطا کرتی ہے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے حضرت محمد رسول اللہﷺ کا عشق غیر فانی دولت بن چکا ہے۔ مسلمان اس محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور 12 ربیع الاول کے موقع پر مختلف طریقے سے اظہار مسرت کرتے ہیں۔

انسانی زندگی عمل سے عبارت ہے۔ انفرادی طور پر انسان کی سیرت اس کے اخلاق و کردار سے ظاہر ہوتی ہے اور اجتماعی طور پر معاشرت تہذیب و تمدن اور بین الاقوامی تعلقات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ زندگی کے ان انفرادی اور اجتماعی دو دائروں میں اگر زندگی مثالی گزرے تو وہ اللہ کی مرضی اور حضور اکرمﷺ کی سیرت پاک کے مطابق ہو گی اور اللہ کے ہاں پسندیدہ ہو گی۔ حضور اکرمﷺ کی ذات اقدس سراپا اعلیٰ اخلاق و کردار تھی اور اس روئے زمین پر آپﷺ سے زیادہ کسی اور نے بہتر انسانی اخلاق کی مثال پیش نہیں کی۔ حضرت محمدﷺ کی پیروی کرنا اور ان سے محبت ہی اللہ پاک کی بندگی ہے۔

نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ (سورۃ ق : 16) یہ توحید کا اقرار ہے اور رسالت کا اعتراف یہ ہے کہ جان کے ہر گوشے میں فیض نبوت جلوہ گر ہیں۔

اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌ (سورۃ الاحزاب : 6) یعنی نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔ 

حضرت انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين۔

"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں'۔

مسلمان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا اور نہ اسے وہ ایمان حاصل ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ بغیر عذاب جنت میں داخل ہو جائے گا، جب تک وہ رسول اللہﷺ کی محبت کو اپنے بچوں، اپنے والدین اور تمام انسانوں کی محبت پر مقدم نہ رکھے۔ کیوںکہ رسول اللہﷺ کی محبت کے معنی ہیں اللہ کی محبت۔ یعنی شعوری طور پر نبی کریمﷺ سے محبت سب محبتوں سے فائق ہے۔ اور آپﷺ سے محبت و قربت مقصود زندگی ہو اور اس محبت کا طریقہ یہ ہے کہ صرف زبانی محبت کا دعویٰ نہ کیا جائے بلکہ نبی کریمﷺ نے جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پر چار کیا اور شاندار عملی نمونہ پیش کیا اُن کو اپنایا جائے اور نبی آخرالزماںﷺ کی اتباع کی جائے۔

ہمارے ایمان و اخلاص کا محور، ہماری محبتوں کا مرکز اس ذات کریمﷺ کی پیروی ہے جس کو خدائے رحیم و کریم نے اپنا حبیب بنایا اور آپﷺ کے اسوہ حسنہ کو لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : 21) قرار دیا۔ یعنی 'بیشک تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہایت عمدہ نمونہ ہے'۔

اور آپﷺ کی پیروی کو اپنی محبت کے ساتھ مشروط کر دیا۔ فرمان الہیٰ ہے کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (سورۃ آل عمران : 31) یعنی اے نبی کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔

یہی اسوہ نبیﷺ ہے کہ آپ کی حیات طیبہ قبل از بعثت بھی قابل اعتماد تھی کہ خود سر قریش اور ہٹ دھرم بدو بھی آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ آپﷺ کی زندگی کی یہی صداقت و امانت اور فراست ہے جس نے اعلان نبوت سے پہلے حجر اسود کی تنصیب کے موقع پر خون ریز اور ہولناک تصادم سے بچا لیا تھا۔ پھر آپﷺ نے انسانیت کے شرف کو بلا تمیز رنگ و نسل برتر رکھا۔ بعثت مبارکہ کے بعد بھی آپﷺ کا اخلاقی برتری کو برقرار رکھنا ہر لحاظ سے اہم ترین ہے۔ مشرکین مکہ اور یہود مدینہ رسالت پناہﷺ کے شدید دشمن تھے لیکن آپﷺ کے مشفقانہ اور رحمت بھرے رویوں نے مخالفین کو اپنا نہ صرف ہمنوا بنایا بلکہ وہی مخالف دین کے صف اول کے خیر خواہ ثابت ہوئے اور انسانی ہمدردی کو ہی اپنی معاشرتی ترجیحات میں شامل رکھا۔ بوڑھی عورت کا سامان اٹھا کر گھر تک پہنچانا، دشمن کی بیٹی کو عزت و وقار عطا کرنا اور مخالفین کے یتیموں کو پیار کا سہارا دینا، یہ سب باتیں معاشرتی بقا کے لیے ایک سچا اور قابل عمل نمونہ ہیں۔

ایک طرف آپﷺ نے اسلام کے سنہری اصولوں کی روشنی میں طرز زندگی سکھایا تو دوسری جانب معاشرے کے لیے قانون وضع کیے۔ یہاں تک کہ جنگ کے اصول بھی بتائے۔ جیسا کہ علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار میں کہا؛

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طہٰ

امت مسلمہ کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو ایسا رہبر کامل میسر آیا جس کی تمنا تمام انبیا نے کی۔ وہ حضور محمد مصطفیﷺ کی ذات روشن ہے۔

نَبیوں کو رہی جن کی معیت کی تمنا

قسمت سے ہمیں قافلہ سالار ملے ہی

عشق مصطفیٰﷺ کے ساتھ ساتھ شریعت مصطفویﷺ اور نظام مصطفیٰﷺ کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری بقا اسی میں ہے۔ مظفؔر وارثی نے کیا خوب کہا ہے کہ؛

لوٹ جا عہد نبیﷺ کی سمت رفتار جہاں

پھر مری پسماندگی کو ارتقا درکار ہے

میں نے اپنی جستجو میں کتنی صدیاں کاٹ دیں

میرے مولا مجھ کو اپنا ہی پتہ درکار ہے

قیمتی پوشاک میں بھی ہے برہنہ زندگی

روشنی کو تیرے سائے کی قبا درکار ہے

صرف تجھ پہ خرچ کرنا چاہتا ہوں زندگی

ایک شب میں عمر بھر کا رت جگا درکار ہے

لے بھی لے اب اپنی رحمت کی پناہوں میں اسے

امتِ بیمار کو دارالشفا درکار ہے

زینہِ خوشنودیِ حق ہیں ترے نقشِ قدم

پہلے وہ تیرا بنے جس کو خدا درکار ہے

ایک پل بھی ہو بہت تجھ تک پہنچنے کے لیے

طے نہ جو کرنا پڑے وہ راستہ درکار ہے

مبتلائے حبسِ دوری ہے مظفؔر وارثی

شاہِ بطحا! اس کو بطحا کی ہوا درکار ہے

آئیں اپنے گناہوں اور عملی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے دامن رسولﷺ میں پناہ لیں اور آپﷺ کی اتباع کریں۔ دعا ہے کہ؛

ادھر بھی ہو ابرِ رحمت کا چھینٹا، ادھر بھی نظر بے سہاروں کے والی

نگاہوں میں ہے تیری بخشش کا عالم، کھڑے ہیں تیرے در پہ تیرے سوالی

ہمیں پھر عطا ہو جلالِ ابوذر، ہمیں پھر عنایت ہو شانِ بلالی

چمکتے رہیں تیرے گنبد کے جلوے، سلامت رہے تیرے روضے کی جالی

ادیبہ انجم شعبہ تدریس سے 26 برس سے زائد عرصہ سے وابستہ ہیں اور گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج وحدت روڈ لاہور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اسلامیات رہی ہیں۔