حُسن کی ملکہ اور اپنی عمر سے کہیں بڑی ایکٹریس۔ اور چہرہ ایسا کہ دیکھتے ہی جس پر نگاہیں ٹھہر جائیں۔ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ قسمت کی بھی دھنی۔ اتنی خوش نصیب کہ نہ تو ڈراما انڈسٹری میں اینٹر ہونے کے لیے کوئی محنت کرنا پڑی اور نہ ہی ترقی کرنے کے لیے۔ بلکہ صرف 2 برس میں پاکستانی ڈراما انڈسٹری کی One Of The Top Actresses بن گئیں۔ یہ ہے مختصر تعارف پاکستانی ڈراما کوئین درِ فشاں سلیم کا۔
درِ فشاں سلیم ڈراما انڈسٹری میں کیسے اور کس کی سفارش سے آئیں؟ ان کے والد کون ہیں؟ کیا ان کے والدین چاہتے تھے کہ درِ فشاں سلیم ایکٹریس بنیں؟ درِ فشاں کے پاس کون سی ڈگری ہے؟ ان کے ڈراموں کی کہانی منفرد کیوں ہوتی ہے؟ ان کے اب تک کے بڑے ڈرامے کون سے ہیں؟ اور درِ فشاں سلیم کو کتنا وزن کم کرنا پڑا تھا ایکٹریس بننے کے لیے؟ ان سب سوالوں کے جواب دیں گے ہم آپ کو اس مضمون میں۔
درِ فشاں سلیم 14 فروری 1996 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ چار بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑی ہیں۔ ان کے والد سلیم الحسن ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں۔ انہوں نے گھر میں ہی پروڈکشن ہاؤس بنایا ہوا تھا۔ یوں گھر میں اداکار آتے رہتے۔ ماحول ایسا تھا گھر کا کہ جس نے درِفشاں میں ایکٹنگ کا شوق پیدا کر دیا۔ لیکن ان کے والدین، خاص کر والد نہیں چاہتے تھے کہ درِ فشاں اداکاری کی فیلڈ میں آئیں۔ مگر درِ فشاں کو تو اداکارہ ہی بننا تھا۔ وہ بچپن سے ہی خود کو مادھوری ڈکشٹ سمجھنے لگی تھیں۔ مادھوری کی طرح اٹھتیں، بیٹھتیں، چلتیں، پھرتیں اور باتیں کرتیں۔ کہیں ڈانس کرتیں تو لوگ حیران رہ جاتے کہ یہ تو سارے کے سارے Steps مادھوری کے ہیں۔ مگر والدین کا صرف یہی کہنا تھا کہ جی لگا کے پڑھو۔ اور پھر درِفشاں نے ایل جی ایس سے او اور اے لیولز کیا۔ اس کے بعد یونیورسٹی کالج لندن سے لاء میں ڈگری لی۔ وہ کبھی Practicing Lawyer تو نہیں رہیں پر عاصمہ جہانگیر مرحومہ کے زیرِ سایہ انٹرن شپ کی۔ اور جب قانون کی ڈگری لے لی تو ادارکارہ بننے کا کہہ دیا والدین کو۔
پہلے پہل تو وہ نہ مانے مگر پھر والدہ مان گئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کو کہا کہ اسے یہ شوق بھی پورا کرنے دیں، اداکاری اسے نام کو بھی نہیں آتی۔ یہ جلد ناکام ہو کے گھر لوٹ آئے گی۔ یوں انہیں اجازت مل گئی۔ اور پھر درِ فشاں نے اپنے والد کے دوست اور مشہور اداکار کاشف محمود کو کہا کہ آڈیشن کروا دیں میرا۔ کاشف محمود نے کراچی کے دو چار پروڈکشن ہاؤسز میں بات کر لی ان کے آڈیشنز کی۔ اور پھر درِ فشاں سلیم کراچی چلی گئیں۔ آپ حیران ہو جائیں گے یہ جان کر کہ درِ فشاں نے کراچی کے تمام پروڈکشن ہاؤسز میں آڈیشنز دیے۔ اور پھر واپس لاہور آ گئیں۔ لاہور آتے ہی انہیں دھڑا دھڑ آفرز آنے لگیں۔ ایک ڈرامے کے لِیڈ رول کے لیے انہیں کاسٹ کر لیا گیا۔ مگر پھر ان سے معذرت کر لی گئی۔ اس پر ان کا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن پھر انہوں نے دلربا ڈراما سائن کر لیا۔
2020 میں ریلیز ہونے والا دلربا ان کا پہلا ڈراما تھا جس میں انہوں نے ہانیہ عامر کی بہن کا کردار کیا تھا۔ یہ سائیڈ رول تھا۔ ایکٹنگ کا مارجن بھی محدود تھا مگر درِ فشاں نے اسے خوب نبھایا۔ ہانیہ عامر جیسی منجھی ہوئی ایکٹریس کے ساتھ کام کیا اور محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ یہ ان کا پہلا ڈراما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ڈرامے کے بعد وہ ڈائریکٹرز اور Viewers کی نظروں میں آ گئی تھیں۔ اس کے بعد عالمی وبا کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن لگ گیا۔ اور اسی دوران درِ فشاں کو لِیڈ رول آفر ہوا ڈراما سیریل بھڑاس میں۔ فلائٹس بند تھیں۔ سو، بائے روڈ کراچی پہنچیں۔ درِ فشاں کو بھڑاس نے ایکٹنگ سمیت بہت کچھ سکھایا۔ انہیں اس ڈرمے میں تھپڑ پڑا۔ اور پھر انہوں نے طے کر لیا کہ آئندہ کسی بھی ڈرامے میں تھپڑ نہیں کھانا۔
خیر بھڑاس کے بعد مرینہ خان کی ڈائریکشن میں بننے والی سیریز 'پردیس' میں لیڈ رول ملا درِ فشاں کو۔ اس میں ان کی اینٹری دس 12 قسطوں کے بعد ہوئی۔ اور پھر تو چھا ہی گئیں وہ۔ اس ڈرامے میں بشریٰ انصاری اور سرمد کھوسٹ بھی تھے۔ سرمد نے درِ فشاں کے متعلق کہا کہ بہت جلد یہ لڑکی ہماری ڈراما انڈسٹری کی ٹاپ ایکٹریسز میں سے ایک ہو گی۔ اور ان کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوگئی اور وہ بھی صرف ایک برس بعد۔
'پردیس' اور 'جدا ہوئے کچھ اس طرح' کے بعد 2022 میں درِ فشاں سلیم کا ڈراما ٹیلی کاسٹ ہوا، کیسی تیری خود غرضی۔ اس ڈرامے نے تو انہیں شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ نہ صرف دیکھنے والے بلکہ تمام ڈراما انڈسٹری بھی درِفشاں کے سحر میں مبتلا ہو گئی۔ سپر ڈپر ہٹ ثابت ہوا یہ ڈراما۔ یہ پاکستان کا پہلا ڈراما بنا کہ جس نے یوٹیوب پر ایک ارب سے زائد ویوز لیے۔ یعنی کمال ہی ہو گیا کہ ایک لڑکی صرف 2 برس میں پاکستانی ڈراما انڈسٹری کی جان بن گئی۔ حالانکہ ٹیلنٹ اور شکل دونوں ہی لاجواب ہونے کے باوجود بڑے بڑے فنکاروں کو ایک عرصہ لگ جاتا ہے ہٹ ہونے میں۔ لیکن قسمت ایک طرف، اس کامیابی میں درِ فشاں کی محنت کا بھی بہت کردار ہے۔
کیسی تیری خود غرضی کی شوٹنگ سے ایک رات پہلے وہ سیڑھیوں سے گر گئیں۔ ان کی ناک پہ چوٹ آئی۔ اس کی وجہ سے ان کی ناک اور چہرہ سُوج گیا۔ مگر انہوں نے اسی حال میں شوٹ کروایا۔ اس ڈرامے کی پہلی 2 قسطوں میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ درِ فشاں کی ناک اور چہرے پر سوجن ہے۔ اور پھر کیسی تیری خود غرضی کے بعد لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ بہت جلد پاکستانی ڈراما انڈسٹری پہ صرف درِ فشاں سلیم کا ہی راج ہو گا۔ لوگ انہیں نیکسٹ ماہرہ خان کہنے لگے۔
خیر، کیسی تیری خود غرضی کے بعد درِ فشاں سلیم کی وہاج علی کے ساتھ Mini Series جرم ریلیز ہوئی۔ اور پھر 'سیاہ' اور 'جیسے آپ کی مرضی' میں کام کیا۔ اس کے بعد درِ فشاں سلیم کے ایک اور ڈرامے عشق مرشد نے کامیابی کے سارے رکارڈز توڑ ڈالے۔ بلال عباس اور درِ فشاں سلیم کی جوڑی کو انتہا سے زیادہ پسند کیا گیا۔ عشق مرشد حالیہ دونوں کا سب سے مقبول ڈراما ہے۔ اور پھر اس کے بعد آیا درِ فشاں سلیم کا ڈراما سیریل خئی (Khai)۔ اس ڈرامے کی مقبولیت بھی بے پناہ رہی۔ بس تھوڑا ہی فرق تھا عشق مرشد اور خئی کی مقبولیت میں۔ اور ان دو ڈراموں کے بعد تو بڑے بڑے ڈائریکٹرز، فنکار اور Critics بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ درِ فشاں سلیم بہت جلد پاکستانی ڈراما انڈسٹری کی سب سے بڑی اسٹار ہوں گی۔ اگرچہ مقابلہ بہت Tough ہے لیکن اگر ایسا ہو گیا تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہو گی در فشاں سلیم کا ہر سکرپٹ سائن نہ کرنا۔
وہ ایک جیسے ڈراموں میں کام نہیں کرتیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ زیادہ ڈرامے کرنا ان کی مجبوری نہیں۔ انہیں گھر کو سپورٹ نہیں کرنا ہوتا۔ اس لیے ان کے پاس چوائس ہوتی ہے کہ وہ مرضی کا سکرپٹ ہی چنیں۔ وہ بہت سی چینجز کروا دیتی ہیں سکرپٹ میں مگر دلیل دے کر۔ بہت سے ڈائریکٹرز انہیں کہتے رہتے ہیں کہ تھوڑا فٹ ہو جاؤ۔ مزید اچھی لگو گی۔ لیکن وہ نہیں مانتیں۔ یہ الگ بات کہ شوبز میں آنے سے پہلے انہوں نے اپنی مرضی سے اپنا وزن کئی کلو کم کیا تھا۔