ماں! میں پردیسی ہوا تھا پرایا نہیں

ماں! میں پردیسی ہوا تھا پرایا نہیں
مبارک ہو! بیٹا ملک سے باہر چلا گیا، اب تو ریل پیل ہو جائے گی، اب تو بڑا سا گھر بنوانا ہے، کار بھی خریدیں گے، اور ہر ہفتے ہوٹل کھانا کھانے جایا کریں گے۔ پہلے ہی مہینے بھائی سے آئی فون منگوانا ہے، اب تو اپنی شادی پر چار لاکھ کا ڈیزائنر لہنگا لوں گی۔ ارے باپ کا کب کا پجارو کا شوق پورا کرے گا تو، میں تو ماں ہوں، حق ہے میرا، چھ نہیں آٹھ، آٹھ سونے کی چوریاں دونوں ہاتھوں میں پہنوں گی۔ سارے گھر کو ڈیزائنر فرنیچر سے بھریں گے۔ کام والی تو ایک طرف کھانے پکانے کو خانساماں بھی رکھیں گے۔

اس سارے شور میں کوئی کمرے میں اس بیس، اکیس سال کے وجود کو تو دیکھنا ہی بھول جاتا ہے۔ جو بچپن کے دوست اور کھیل چھوڑ کر ایک اجنبی ملک میں اجنبی لوگوں کے درمیان جا رہا ہوتا ہے۔ سب کی خوشیوں کا شور اتنا اونچا تھا کہ اس کا بے آواز سا ڈر تو سسکاری بھرنے کی بھی ہمت نہ کر سکا۔ اور ناتواں سے کندھے پورے گھر کے خوابوں کا بوجھ اٹھا کر بہت دور دیس کے سفر پر چل دیے۔

اب آگے جا کر کیا ہو، اس سے گھر والوں کا کیا لینا دینا۔ بھائی انہوں نے آپ کو باہر بھیجا ہی اس لیے کہ قربانی کا جانور تھا، محبت کے دیوتا کے پاؤں میں دان کیا اور بدلے میں عیش و عشرت بھری زندگی لے کر لوٹ گئے۔ اب آگے جا کر کیا ہو، قسمت آپ کی۔ اگر قسمت اچھی ہوتی تو، دیس نکالا ملتا ہی کیوں؟

ایجنٹ جھوٹا نکلے، دیار غیر میں کھانا کھانے کے بھی پیسے ہوں کہ نا، ایک کمرے میں دس، دس لوگوں کے ساتھ مل کر جانوروں کی طرح رہنا پڑے یا ویزے کے لیے ایک ناپسندیدہ شخص کے ساتھ ساری زندگی بتانی پڑے، سب آپ کے مسئلے ہیں۔ بھوک لگی ہے، سونے کو جگہ نہیں اور ساتھ گھر سے آئے فون پر فرمائشیں، امیدیں اور آس، کس قدر اس وجود پر بوجھ بڑھاتی ہیں کہ کسی بھی ایک فرمائش پر نا کرنے سے مرنا بہتر لگتا ہے۔

جب ایسے پردیسی لوگوں کو دیکھوں تو سوچتی ہوں کہ کیا گھر والے پردیس بھیجتے ہی پرائے ہو جاتے ہیں۔ اپنی خواہشوں میں گم، کبھی سوچتے کیوں نہیں، جو یہاں سے خالی ہاتھ گیا ہے، وہاں جاتے ہی اسے ایسا کون سا قارون کا خزانہ مل گیا کہ ہم دس لوگ فرمائشوں کے مگرمچھ کا منہ کھلا رکھیں اور وہ اپنی محنت کا ثمر اس بھوکے درندے کے منہ میں بھرتا رہے۔

کبھی سوچا جب عید شبرات پر اس کے بھیجے پیسے سے دعوت اڑائی جا رہی ہوتی ہے تو وہ وہاں کہیں تنہا محنت کر کے آتا ہے، اور خود کو خود ہی چار آنسوؤں سے عید مبارک کہہ کر سو جاتا ہے۔ جب دعوتیں پک رہی ہوتی ہیں تو ان دعوتوں کے لیے کمانے والا کہیں ٹھنڈا کھانا، ذائقہ محسوس کیے بنا حلق سے آنسوؤں کے ساتھ اتار رہا ہوتا ہے۔ جب سب اکھٹے ہوتے ہیں وہ تنہائی کے عذاب کو چکھ رہا ہوتا ہے۔ آپ اپنی ضرورتیں نہیں خواہشیں بتا رہے ہوتے ہیں اور وہ کام نہ مل پانے پر ہر دوسرے شخص کے سامنے دست سوال پھیلا رہا ہوتا ہے۔

ایک بار باہر کیا بھیجا، ہر رشتہ مطلب کا ہو گیا۔ اس دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنوں کی بے حسی دیکھتا بھی ہے، پھر ہنس کر میں کرتا ہوں کچھ کہہ کر کام میں جت جاتا ہے۔ ہر بات کے ساتھ یہ طعنہ اپنا پیٹ کاٹ کر باہر بھیجا، کبھی سوچا اس نے کتنی دفعہ اپنا پیٹ کاٹ کر آپ کا کہا پورا کیا ہے۔ کئی تو ایسے بھی عظیم گھر والے دیکھے ہیں، جو سوچتے ہیں کہ پہلے باقی سب گھر کے بچے سیٹل ہو جائیں پھر اس بچے کو اپنا گھر بنانے کی اجازت دی جائے گی۔ کیوں؟ کیوں کہ اپنے بیوی بچے آ گئے تو پھر ہماری خواہشوں اور فرائض کو کون پورا کرے گا۔

جناب اگر اس بچے کو آپ نے چار پیسے دے کر باہر بھیجوا ہی دیا ہے تو کیا کوئی احسان ہو گیا۔ باقی بچے بھی آپ کے ہیں، اس بھائی یا بہن کی ذمہ داری نہیں ہو گئے جس کو پردیس بھیج کر آپ کو حق ہو گیا کہ اب اپنا ہر فرض اس کے کندھوں پر لاد دیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ظالم ہوتے ہیں کہ اگر پردیس میں بچے کو کام نہ مل رہا ہو، تو تسلی دینے کی بجائے سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ واپس مت آنا۔ بنا کام کے ایک اجنبی ملک میں غیر قانونی طور پر رہتے ہوئے صبح سے شام کرنا، وہ بھی کبھی بھوکے پیٹ تو کبھی بنا چھت کے۔

یہ درد وہی سمجھے جس پر گزری ہو۔ کبھی تنہا بیٹھو، تو وطن کی گلیاں، محلے کا گراؤنڈ، دوستوں کا شور اور چھت پر چپکے چپکے آتی سانولی شام۔ کیسے دل پر چھریاں چلاتی ہے۔ سب بہن بھائی، ماں کے ہاتھ کی پکی گرم روٹی کھاتے، کسی کے آنسوؤں کے ساتھ ٹھنڈی بریڈ کو گلے سے اتارنے کے درد کو کیسے سمجھیں۔ کب بیس، اکیس سال کے بچوں کو گھر والوں کی بےحسی دو سال میں محنت کی چکی میں پیس کر 80 سال کا بوڑھا بنا دیتی ہے، کسی کو علم ہی نہیں ہو پاتا۔

کبھی جو اپنوں سے ملنے کی آس میں پلٹنا بھی چاہیں تو واپسی سے پہلے فرمائشوں سے صندوق بھرتے، وہ دل کتنی بار کانپتے ہوں گے اور واپسی پر وہی گلیاں اور شامیں جب اجنبی ہو کر ملتی ہوں گی۔

''ہائے میرا پردیسی لوٹا کی بجائے کتنے دن کی چھٹی ہے'' کی آواز آتی ہو گی تو کیسی ہوک اٹھتی ہو گی۔ جو پردیسی ہو جائیں، ان کا دیس بھی بیگانہ ہو جاتا ہے، وہ پلٹ بھی آئیں تو اپنا ملک بھی پردیس سا رویہ اپنا لیتا ہے۔ معیشت کا پہیہ سخت ہے، مگر اپنوں کو اپنی بےحسی اور خواہشوں کے پتھر اس میں ڈالتے وقت کچھ تو وزن اٹھانے والے کا خیال کرنا چاہیے۔ میں جانتی ہوں بہت سے اعتراض اٹھیں گے اس تحریر پر، مگر جب ہر دل کے درد کو لفظوں میں ڈھالنے کی قسم کھائی ہے تو اس کو سنے بنا کیسے آگے بڑھوں۔

اس معاملے میں باہر جانا، ضرورت کے تحت ہوتا ہو گا۔ مجبوریاں ہوتی ہوں گی مگر بعد میں گھر والوں کی بےحسی بہت سو کو زخمی کرتی ہے اور میرے آنسوؤں ہر ایسے زخمی دل کو اس تحریر سے سلام کہتے ہیں۔