8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی الیکشن مہم اور ووٹرز سے میل ملاقاتوں میں اس بار وہ سرگرمیاں اور روایتی جوش نظر نہیں آرہا جو عموماً الیکشن کے ماحول میں دکھائی دیتا ہے۔
ضلع کیچ میں صوبائی اسمبلی کے 4 اور قومی اسمبلی کے 2 حلقوں میں روایتی انتخابی سرگرمیاں ماند نظر آتی ہیں جبکہ عام دنوں میں متحرک سیاسی جماعتیں الیکشن قریب ہونے کے باوجود انتخابی ماحول بنانے میں اب تک کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔
اس مرتبہ کے الیکشن میں پھیکا پن ہونے کی جہاں کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ان میں سے ایک بڑا سبب دو ہفتوں کے دوران مختلف امیدواروں پر حملے اور انہیں درپیش سکیورٹی تھریٹ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ حلقہ این اے 258 کیچ گوادر کی نشست پر مسلم لیگ ن کے امیدوار میر اسلم بلیدی پر 10 جنوری کو تربت میں ایک جان لیوا حملہ کیا گیا جس میں ان کی جان تو بچ گئی مگر انہیں شدید چوٹیں آئیں۔ وہ اب تک کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس کے علاوہ 16 جنوری کی شام کو پیپلز پارٹی کی طرف سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 28 کیچ 4 کے امیدوار میر اصغر رند کی رہائش گاہ تربت میں دستی بم پھینکا گیا جس سے ان کے چھوٹے بھائی زخمی ہو گئے۔ ان دونوں واقعات کے بعد بلوچستان میں امیدواروں اور عام ووٹرز میں خوف کے ایک ماحول نے جنم لیا ہے جس کے باعث پہلے سے ماند سیاسی سرگرمیوں میں مزید کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ان دو امیدواروں پر حملے کے علاوہ 21 جنوری کو پی بی 27 کیچ 3 سے نیشنل پارٹی کے امیدوار لالا رشید دشتی پر ایک جان لیوا حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ سینیٹر کہدہ اکرم دشتی کے ہمراہ اپنے حلقہ انتخاب میں ایک عوامی اجتماع کر کے واپس تربت کی جانب آ رہے تھے۔
اس واقعہ کی تفصیلات ایک پریس کانفرنس میں بیان کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک جو سابق وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ ان کے پارٹی رہنما پر دشت میں ایم ایٹ شاہراہ پر پہلے سے گھات لگائے مسلح افراد نے سنائپر سے حملہ کیا، اس سے لالا رشید دشتی کی گاڑی کے فرنٹ شیشے پر گولیاں لگیں مگر گاڑی کے بلٹ پروف گاڑی ہونے کے باعث خود انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
ڈاکٹر مالک نے الزام لگایا کہ ان کی پارٹی کو الیکشن میں مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جس کی وجوہات سے وہ لاعلم ہیں۔ انہوں نے الیکشن کے دوران پرتشد کارروائیوں کو الیکشن کا عمل متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا۔
ضلع کیچ میں 2013 اور 2018 کے الیکشن میں بھی امیدواروں اور پولنگ سٹیشنز پر حملوں کے کئی واقعات پیش آئے تھے۔ 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اس وقت کے امیدوار حاجی اکبر آسکانی کے قافلے کو مند میں انتخابی مہم کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا جس وہ خود تو محفوظ رہے مگر ان کے دو گارڈ اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک پر بھی 2013 کی الیکشن مہم کے دوران دو مرتبہ بم حملہ کیا گیا اور ان کی رہائش گاہ پر انتخابی جلسہ کے موقع پر بھی دستی بم پھینکا گیا جس سے ان کی پارٹی کے کچھ کارکنان معمولی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ نیشنل پارٹی کے ریجنل آفس پر 2013 کے الیکشن میں ایک کارنر میٹنگ کے دوران دستی بم پھینکا گیا۔ اس حملے سے ان کے دو کارکنوں کو سخت چوٹیں آئی تھیں۔
2024 کے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران صرف دو ہفتوں میں ضلع کیچ میں جہاں تین امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا وہیں 25 جنوری کو الیکشن کمیشن کے ریجنل آفس تربت میں ایک بڑا حملہ کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ پولیس کے مطابق تین موٹر سائیکل سواروں نے الیکشن کمیشن آفس کے سامنے سکیورٹی پر مامور پولیس کی چوکی پر حملہ کیا اور اہلکاروں سے ان کا اسلحہ چھیننے کی کوشش میں ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا جبکہ ملزمان نے الیکشن کمیشن کے آفس کے اندر دستی بم پھینکا جس سے ایک اہلکار زخمی ہوا۔ پولیس کے مطابق ملزمان الیکشن کمیشن آفس میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے جسے ناکام بنا دیا گیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ 25 جنوری کو پیش آیا جب نامعلوم افراد نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پی بی 27 کیچ 3 کے ایک آزاد امیدوار کے گھر پر گرنیڈ پھینکا اور فائرنگ کی۔ اس حملہ سے گھر کے ایک کمرے کو نقصان پہنچا۔
8 فروری کے عام انتخابات جوں جوں قریب آ رہے ہیں ضلع کیچ میں الیکشن کے حوالے سے سکیورٹی خدشات مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔ امیدوار اور ووٹرز دونوں غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان نے الیکشن کے دوران ضلع کیچ میں سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بدھ کو تربت کا دورہ کیا اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں الیکشن کے دوران سکیورٹی مضبوط بنانے، امیدواروں، ووٹرز، پولنگ عملے اور پولنگ سٹیشنز کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایات تو جاری کر دیں مگر جو بے یقینی پہلے سے موجود ہے وزیر اعلیٰ کے دورہ کے اگلے دن الیکشن کمیشن کے آفس پر حملہ اور ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت سے اس خوف میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔