ویسٹ انڈیز نے 26 سال بعد آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ ہرا کر دل جیت لیے

ویسٹ انڈیز بھی آسٹریلیا سے پہلا ٹیسٹ ہار گیا مگر گابا برسبین میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو 8 رنز سے ہرا کر بہت بڑا اپ سیٹ کر دیا۔ یوں 26 سال بعد ویسٹ انڈیز کو آسٹریلیا کی سرزمین پر ٹیسٹ میچ جیتنے کا موقع مل گیا۔

ویسٹ انڈیز نے 26 سال بعد آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ ہرا کر دل جیت لیے

آج کل ٹیسٹ کرکٹ اپنے جوبن پر ہے۔ 50 اوور کے ورلڈ کپ کے بعد سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک آئی سی سی ٹیسٹ کرکٹ چیمپئن شپ کے تحت میچز کھیل رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ ہی اصل سنجیدہ کرکٹ ہے۔ ون ڈے میچوں میں بھی اگرچہ اعصاب شکن مقابلے ہوتے ہیں مگر جو مزہ ٹیسٹ کرکٹ میں ہے وہ کسی اور فارمیٹ میں نہیں۔ ٹوئنٹی 20 کرکٹ موج میلے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

کل دو اعصاب شکن اور سنسنی خیز ٹیسٹ میچوں کو دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ پہلا ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے درمیان اور دوسرا بھارت اور برطانیہ کے درمیان تھا۔ دونوں میچوں میں ٹیسٹ کرکٹ کی کلاس دیکھنے کو ملی۔ حقیقت میں محسوس ہوا کہ آج بھی اگر کوئی جنٹلمین گیم ہے تو وہ کرکٹ ہی ہے۔

ویسٹ انڈیز کی ٹیم دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے آسٹریلیا آئی ہے۔ گرمیوں میں آسٹریلیا میں کرکٹ سیزن شروع ہو جاتا ہے۔ اس بار 5 ٹیسٹ میچوں کو شیڈول کیا گیا تھا۔ پاکستان کے ساتھ 3 اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز تھی۔ توقع یہی تھی کہ آسٹریلیا 5 کے 5 ٹیسٹ میچوں میں کامیابی حاصل کر لے گا کیونکہ جہاں پاکستان نے 1995 سے آسٹریلیا میں کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا تھا، وہیں ویسٹ انڈیز نے 1997 سے آسٹریلیا میں کوئی بھی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا۔ جبکہ پاکستانی اور ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیموں کا موجودہ معیار ایسا ہرگز نہیں ہے جو 1995 اور 1997 والی ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کا تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

چنانچہ توقع کے مطابق ایسا ہی ہوا کہ پاکستان آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریز تین صفر سے ہار گیا۔ ویسٹ انڈیز بھی آسٹریلیا سے پہلا ٹیسٹ ہار گیا مگر گابا برسبین میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو 8 رنز سے ہرا کر بہت بڑا اپ سیٹ کر دیا۔ میچ کے چوتھے روز آسٹریلیا کو 215 رنز کا ٹارگٹ ملا مگر ان کی پوری ٹیم 207 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ یوں 26 سال بعد ویسٹ انڈیز کو آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیتنے کا موقع مل گیا۔ ویسٹ انڈیز کے نوجوان فاسٹ باؤلر شمایا جوزف نے 7 آسٹریلین بلے بازوں کو آؤٹ کیا اور دونوں ٹیسٹ میچوں میں مجموعی طور پر 13 وکٹیں لے کر مین آف دی سیریز قرار پائے۔ ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر بیٹر ڈی سلوا اور آل راؤنڈر کیون نے بھی اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا۔

ویسٹ انڈیز اس بار ون ڈے ورلڈ کپ نہیں کھیل سکا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کے کرکٹ بورڈ نے انقلابی فیصلہ کیا جس کے مطابق وائٹ بال اور ریڈ بال کرکٹ کی ٹیموں اور کوچز کو الگ الگ کر دیا گیا۔ وائٹ بال کرکٹ کے لیے ڈیرن سیمی کوچ بنے۔ انہوں نے ورلڈ کپ کے بعد برطانیہ کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرایا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں برتھویٹ کو کوچ بنایا تو آسٹریلیا سے 26 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابی حاصل کی اور سیریز بھی برابر کی۔

پاکستان کو ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کو ریڈ بال اور وائٹ بال کرکٹ میں تقسیم کرنا ہو گا۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کو خودغرض سوچ سے نکلنا ہو گا مگر اس کے لیے ایک مضبوط اور کرکٹ کو سمجھنے والے بورڈ چیئرمین کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب برطانوی کرکٹ ٹیم 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے بھارت آئی ہے۔ حیدر آباد دکن میں پہلے ٹیسٹ میچ کی سپن وکٹ پر 3 دن تک بھارتی ٹیم چھائی رہی اور چوتھے روز انہیں صرف 231 رنز کا ٹارگٹ ملا۔ ہولی پاپ نے 196 رنز کی تاریخ ساز باری کھیلی۔ توقع تھی کہ بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن یہ ٹارگٹ آسانی سے پورا کر لے گی کیونکہ پہلی اننگز میں برطانوی باؤلرز بھارت کے بلے بازوں کے سامنے بے بس نظر آئے تھے مگر میچ کے چوتھے روز صورت حال مختلف ہو گئی۔ پوری بھارتی ٹیم 202 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے والے برطانوی لیفٹ آرم سپنر ٹوم ہرٹلی نے اننگز میں 7 وکٹیں لے کر سب کو حیران کر دیا۔ بلاشبہ یہ اعصاب کی جنگ تھی جو برطانوی کپتان بین سٹوکس نے جیت لی۔

برطانیہ میں بھی ویسٹ انڈیز کی طرح ریڈ بال اور وائٹ بال کرکٹ کی الگ الگ ٹیمیں ہیں۔ دونوں فارمیٹس کے کپتان اور کوچنگ سٹاف بھی مختلف ہیں۔ برطانیہ کا بیز بال کرکٹ کا فارمولا اب تک کامیاب رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی برطانوی اور ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کی طرح اس تکنیک کو اپنانا ہو گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔