Get Alerts

عمران خان نے نئی نسل کو گرویدا بنانے کا آئیڈیا کہاں سے لیا؟

عام انتخابات 2013 سے قبل جاوید چوہدری نے خان صاحب سے ان کے سپورٹرز کی گالم گلوچ اور بد زبانی کے بارے میں شکوہ کیا تو خان صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا؛ 'جاوید، میں کیسے انہیں روک سکتا ہوں؟ وہ نوجوان ہیں۔ ان میں جوش ہے۔ اب انہیں کوئی نہیں روک سکتا'۔

عمران خان نے نئی نسل کو گرویدا بنانے کا آئیڈیا کہاں سے لیا؟

آپ کچھ دیر کیلئے یوٹیوب کی مثال سامنے رکھ لیں۔ یوٹیوب ڈاٹ کام ڈومین ایڈریس فروری 2005 میں رجسٹر ہوا، پہلی ویڈیو اپریل میں اپ لوڈ ہوئی اور اسی سال دسمبر میں یوٹیوب آفیشلی ایک ویڈیو شیئرنگ سائٹ کے طور پر لانچ ہو گئی۔ اکتوبر 2006 میں گوگل نے اعلان کیا کہ وہ یوٹیوب کو 1.65 بلین ڈالرز میں خرید رہے ہیں حالانکہ اس سال یوٹیوب نے صرف 15 ملین ڈالرز کمائے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ گوگل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز شروع میں یوٹیوب کو خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ ان میں زیادہ تر کا خیال تھا کہ گوگل ویڈیوز کو ہی بہتر بنایا جانا چاہیے، اگر یوٹیوب کا خریدا جانا ضروری ہو تو 80 سے 100 ملین ڈالرز کے درمیان آفر دینی چاہیے مگر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایک ایسا شخص تھا جس نے اصرار کیا تھا کہ یوٹیوب کو اس کی سالانہ کمائی کے بجائے اس کی پوٹینشل مارکیٹ ویلیوایشن کے حساب سے خریدا جائے اور ایسی آفر دی جائے جو یوٹیوب کمپنی کیلئے ٹھکرانا ناممکن ہو جائے۔ اس سے پہلے اسی سال گوگل ایک مائی سپیس نامی کمپنی کو 610 ملین ڈالرز کی ڈیل میں خریدنے میں ناکامی سے یوں نقصان اٹھا چکا تھا کہ مائی سپیس کو بعد ازاں ایک نیوز کارپوریشن نے 587 ملین ڈالرز میں خرید لیا اور اسی سال گوگل نے مائی سپیس کو اشتہاری مہم کیلئے 920 ملین ڈالرز ادا کیے۔ کہاں 610 ملین ڈالرز میں پوری کمپنی خرید رہے تھے اور کہاں بعد ازاں 920 ملین ڈالرز صرف اشتہار چلوانے کے ادا کرنے پڑے۔ یاد رہے اس وقت مائی سپیس ڈاٹ کام سب سے بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہوا کرتا تھا۔

گوگل مائی سپیس ڈیل مس کرنے والی غلطی نہیں دہرانا چاہتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ جس وقت گوگل نے یوٹیوب کو خریدا اس وقت یوٹیوب ویڈیو شیئرنگ سروس فراہم کرنے والی واحد کمپنی تھی بلکہ اس وقت ویمیو، یاہو ویڈیو، ایم ایس این ویڈیو اور مائی سپیس ویڈیو کے علاوہ گوگل کی اپنی ویڈیو شیئرنگ سروس گوگل ویڈیو بھی موجود تھی لیکن پھر ایسا کیا تھا کہ گوگل اتنی بڑی رقم ادا کرنے پر تیار ہو گیا؟ وہ حقائق کچھ یوں ہیں کہ:

ان پانچ بڑی ویڈیو شیئرنگ سروسز کے مقابلے میں یوٹیوب کے سبسکرائبرز 45 فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ سب سے زیادہ تھے۔

یوٹیوب واحد سروس تھی جس کے سبسکرائبر سائٹ پر کمنٹس کی صورت میں براہ راست اظہارِ خیال کرتے تھے اور یوں سائٹ پر وقت گزارنے کی شرح سب سے زیادہ تھی۔

یوٹیوب پر ویڈیو شیئر کرنا نسبتاً آسان تھا جس کی وجہ سے ایک ہی ویڈیو کے ایک سے زائد ورژن دستیاب تھے جس کی وجہ سے سائٹ کو وزٹ کرنے والے کیلئے ویڈیو کی کوالٹی کا انتخاب کرنا آسان تھا۔

ان حقائق کی بنیاد پر گوگل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے ایک آدمی کا وژن تھا کہ اس سروس کو ایڈورٹائزمنٹ کیلئے استعمال کر کے اور ایڈورٹائزمنٹ کی بنیاد پر ریونیو شیئر کر کے ایک نئی منی سٹریم تخلیق کی جا سکتی ہے۔ آج یوٹیوب پر ہر ایک منٹ میں پانچ سو گھنٹے سے زائد کی ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں۔ پچھلے سال یوٹیوب کا ریونیو 29.2 بلین ڈالرز تھا۔ 2006 میں جب گوگل نے یوٹیوب کو خریدا اس وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ایک ویڈیو شیئرنگ سروس بطور ایڈورٹائزمنٹ پلیٹ فارم بھی استعمال ہو سکتی ہے اور اس کو ایک ریونیو سٹریم میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی سوچ یا پوٹینشل کو دیکھ پانے کی صلاحیت کو وژن اور ترقیِ مسلسل کہتے ہیں۔

اب کچھ دیر کیلئے یوٹیوب کو ایک طرف رکھ دیں اور وطنِ عزیز میں اندازِ سیاست کی طرف آ جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں پہلے سیاسی جماعتوں کے ورکنگ ماڈلز کو سمجھنا ہو گا۔

1950 کی دہائی کی سیاست انقلاب کے اردگرد گھوما کرتی تھی، 60 کی دہائی میں انقلاب کے ساتھ ساتھ دفاع بھی شامل ہو گیا۔ 70 کی دہائی میں انقلاب ذرا پیچھے ہٹ گیا اور اس کی جگہ مذہب نے لے لی۔ 70 اور 80 کی دہائی کی سیاست دفاع اور مذہب کے گردا گرد ہی گھوما کرتا تھی۔ اس ترتیب کو ن لیگ نے 90 کی دہائی میں اپ سیٹ کر دیا۔ ن لیگ نے سیاست کا رخ 90 کی دہائی میں کھوکھلے نعروں کے بجائے ترقیاتی کاموں کی طرف کر دیا۔ عام عوام کو پہلی بار سیاسی چناؤ کے نتیجے میں اپنے علاقوں میں کچھ بہتری نظر آنے لگی۔ اس دوران نوجوان طبقے کے ساتھ رابطے کیلئے ن لیگ میں دو ذیلی مگر تگڑی تنظیمیں، یوتھ ونگ اور ایم ایس ایف تیار ہو چکی تھیں۔ لہٰذا عوامی سطح پر رابطہ بھی تھا، اثر و رسوخ بھی قائم ہوا اور یوں ایک سیاسی مشینری وجود میں آتی گئی جو ن لیگ کے ترقیاتی طرزِ سیاست کیلئے ایک ستون کا کام دینے لگی۔ پیپلز پارٹی نے بہرحال بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد اگلی دو دہائیاں اپنی سیاست اس اندوہناک واقعے کے گردا گرد ہی فوکس رکھی۔ جب بھی حکومت ملی، پی پی کی حکومت پے در پے سکینڈلز کی نذر ہوتی رہی۔ محترمہ بینظیر بھٹو ضرور ایک وژنری اور عالمی پائے کی لیڈر تھیں مگر ان کے بعد کی لیڈرشپ اور ان میں زمین آسمان کا فرق بارہا سامنے آتا رہا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

2010 تک عمران خان اپنے دو رفاحی پروجیکٹس، شوکت خانم اور نمل کالج کو سیاسی جمپ بورڈ کے طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہے تھے۔ دونوں پروجیکٹس کو عوام میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر عوام رفاحی کاموں کی بنیاد پر سیاست کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہو سکی تھی۔ یہیں سے عمران خان نے سٹریٹجک بنیادوں پر نئی نسل کے لیے پائیڈ پائپر کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے ہم ایک الگ کالم میں تفصیلات واضح کر چکے ہیں کہ خان صاحب کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے۔ بہرحال خان صاحب نے سٹریٹجکلی نئی نسل کو گالی اور دھونس سے لیس کرنے کا شعوری فیصلہ کیا۔ مثال کے طور پر خان صاحب کے دسمبر 2010 میں سکاربرو کینیڈا میں ہونے والے جلسے میں ناچیز خود شریک تھا۔ اس جلسے میں خان صاحب کے حواریوں نے جب زرداری کتا ہائے ہائے کے نعرے لگائے تو جواب میں خان صاحب نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے حواریوں کو خاموش کرواتے ہوئے کہا کہ 'میں آپ کے ان نعروں سے بڑا مایوس ہوا ہوں، یہ جو نعرے آپ لگا رہے ہیں یہ کتے کی توہین ہے'۔ اس کے بعد دیر تک تالیاں پٹتی رہیں اور قہقہے پڑتے رہے۔

ایسے ہی 2013 کے انتخابات سے قبل غالباً مارچ یا اپریل میں معروف اینکر جاوید چوہدری نے اپنے پروگرام میں خان صاحب کے سامنے ان کے سپورٹرز کی گالم گلوچ اور بد زبانی کے بارے میں شکوہ کیا اور کہا کہ آپ اپنے سپورٹرز کو روکیں تو خان صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا؛ 'جاوید، میں کیسے انہیں روک سکتا ہوں؟ وہ نوجوان ہیں۔ ان میں جوش ہے۔ اب انہیں کوئی نہیں روک سکتا'۔

خان صاحب نے شعوری طور پر اپنی سیاست کیلئے جنریشن وائی (1981 تا 1996) اور جنریشن زیڈ (1997 تا 2012) کا انتخاب کیا۔ اس جنریشن کی خاص بات یہ ہے کہ ان ادوار میں پیدا ہونے والے افراد تاریخ، ادب، معاشرت اور ملکی و علاقائی سیاست اور اس کے مسائل، فکر روزگار اور مطالعے کی عادت سے نابلد وہ بچے ہیں جن کی ذہن سازی میں والدین سے زیادہ فیس بک، وٹس ایپ، یوٹیوب اور موبائل فون نے زیادہ کردار ادا کیا۔ یہ بچے حقیقی سے زیادہ خیالی دنیا اور خیالی مسائل کے خیالی حل کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ ان دونوں جنریشنز کو ن لیگ کے ترقیاتی کاموں سے دلچسپی ہے اور نہ ہی یہ پیپلز پارٹی کی مظلومیت کی تاریخ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لہٰذا خان صاحب کی سیاسی جماعت کے علاوہ باقی سیاسی جماعتوں نے چونکہ جنریشن وائی اور جنریشن زیڈ کو شعوری طور پر نظر انداز کیے رکھا تو فطری طور پر دونوں جنریشنز میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جگہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ن لیگ نے تو 2018 میں اقتدار سے باہر ہونے کے بعد شعوری طور پر اپنی بازو تنظیموں، یوتھ ونگ اور ایم ایس ایف کو اگلے پانچ سال تک کالعدم قرار دیے رکھا۔ جنریشن وائی اور جنریشن زیڈ چونکہ حقیقی سے زیادہ ورچوئل اور ڈیجیٹل ورلڈ سے کنکٹڈ ہیں تو ان کے ساتھ کنکٹ ہونے کیلئے انہی پلیٹ فامرز پر مؤثر انداز میں جانے کی ضرورت تھی جہاں ان کے ساتھ بہتر ذہنی ربط رکھا جا سکتا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس پوٹینشل کو دیکھنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں اور دونوں جماعتوں نے اپنا دہایئوں پرانا ذات برادری، دھڑے بندی اور یونین کونسل سٹائل طرزِ سیاست قائم رکھنے کو ترجیح دی۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا زیادہ تر (تمام نہیں) ووٹر بوُمرز جنریشن (1946 تا 1964) اور جنریشن ایکس (1965 تا 1980) کے درمیان پیدا ہونے والے افراد ہیں۔ ورلڈ بینک کی 2000 کی سٹڈی کے مطابق پاکستان میں مرد و خواتین کی اوسط عمر 66.2 سال ہے۔ اس حساب سے جس شخص کی عمر 1990 میں 30 سال تھی، اس کی عمر اگلے سال 2025 میں 65 برس ہو جائے گی۔ 2017 کی مردم شماری میں ایسے افراد کی تعداد کل آبادی کا تقریباً 4 فیصد ہے۔ اسی 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں جنریشن زیڈ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد تقریباً 36.3 فیصد ہے جو کہ تمام نیا ووٹر ہے اور اسے پچھلے مسائل اور ترقیاتی کاموں وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔

ان تمام اعداد و شمار کو پیش کرنے سے میرا مقصد یہ بات سامنے لانا ہے کہ اگلے 5 سے 10، 12 سال کے اندر بوُمرز جنریشن اور جنریشن ایکس کے افراد آہستہ آہستہ کم ہوتے چلے جائیں گے اور یہی دو بنیادی جنریشنز ہیں جن پر دونوں سیاسی پارٹیوں کی اکثریت کا انحصار ہے۔ اس کے برعکس جنریشن وائی اور جنریشن زیڈ اپنا اثر زیادہ مؤثر انداز میں دکھاتے چلے جائیں گے۔ جنریشن زیڈ کے بعد آنے والی جنریشن الفا چونکہ جنریشن وائی اور زیڈ کے ہاتھوں ہی تربیت پائے گی تو اس کو بھی آپ جنریشن زیڈ میں ہی شامل سمجھیے۔

سیاسی طور پر اس صورت حال کو بروقت سمجھنے اور اعداد و شمار کی روشنی میں جس پُرمغز اور اعداد و شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے جس فیصلہ سازی کی ضرورت ہے وہ فی الحال دونوں سیاسی پارٹیوں میں مفقود ہے کہ دونوں سیاسی پارٹیاں یوٹیوب ایڈورٹائزمنٹ کے مقابلے میں پی ٹی وی پر اشتہار چلوانے کے دور میں ہی جی رہی ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتیں ڈیجیٹل میڈیا پر پروپیگنڈا کے تسلسل سے ہونے والے نقصانات کو سمجھنے اور اس کے تدارک میں مکمل ناکام نظر آتی ہیں۔ خان صاحب کے بعد اگر کسی نے پروپیگنڈا کی اہمیت کو درست طریقے سے سمجھا تھا تو وہ ہمارے محبوب جنرل آصف غفور تھے۔ آپ نے چند مہینوں میں ہی خان صاحب سے اثر قبول کرتے ہوئے قوم کے سامنے ایک ففتھ جنریشن وار فیئر نامی عفریت کھڑا کر دیا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اب ففتھ جنریشن وار فیئر کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔

بہرحال دونوں سیاسی جماعتوں کی نوجوان قیادت آج بھی اپنے اپنے مخصوص حلقہ چاپلوس میں رہنے پر مُصر ہے۔ اگر کوئی ڈرامائی تبدیلیاں نہ رونما ہو گئیں تو ان ترجیحات کا حقیقی شاخسانہ آپ کو آئندہ 5 سے 10 سال کے اندر اندر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔