کیا پاکستان کو اسلامی صدارتی نظام کی طرف جانا چاہیے؟

کیا پاکستان کو اسلامی صدارتی نظام کی طرف جانا چاہیے؟
تحریر: (محمد خضران شبیر) سب سے پہلے یہ جان لیں کہ جمہوریت صرف پارلیمانی نظام کو نہیں جمہوریت جمہور(عوام)کے فیصلے پر بنی حکومت کو کہتے ہیں جو اسلامی صدارتی نظام کی صورت میں ہونی چاہیے۔ جس میں عوام ڈائریکٹ اپنے صدر کاانتخاب ووٹ کے ذریعے کریں اور صدر اسلامی قوانین نافذ کرے اور اپنی ٹیم خود منتخب کرے۔

صدر عوام کو اچھے برے کا جواب دہ ہو، اگروہ چاہے توملک کا بہترین پڑھا لکھا شخص اپنا وزیر تعلیم لگا سکے تا کہ اس پڑھے لکھے کو سیاست میں آنے کی ضرورت نا ہو۔ ویسے بھی لوگ ہنر ہونے کے باوجود سیاست کو شریف لوگوں کا پیشہ نا سمجھنے کی وجہ سے میں نہیں آتے۔حکومت کے لیے ایک سب سے بڑی مشکل یہ بھی ھوتی ہے کہ اس کے 5 سے 7 سیٹوں والے اتحادی اسے بلیک میل کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت حکومت گرا دیں گے، اگر حکومت نے ان کے کسی وزیر کی نااہلی پر اسے ہٹایا یا ان کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کی۔

اسلامی صدارتی نظام میں ایسا ممکن نہ ہو گا، اسلامی صدارتی نظام میں منتخب صدر قرارداد مقاصد کے مطابق قرآن و سنت کے احکامات کے تابع فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔اس طرح وہ کوئی مطلق العنان ڈکٹیٹر بن ہی نہیں سکتا، بلکہ اللہ کے دین کا محافظ ہوگا۔وہ طاقتور اور بااحتیارا ہو گا اور پورے ملک سے اعلیٰ ترین افراد کا انتخاب کرے گا۔ حکومت کو چاہیے ریفرینڈم کروا لے اور صدارتی نظام کا اعلان کریں۔

منتخب نمائندوں کو اصل کام قانون سازی دیں اور ملک کے قابل ترین ٹیکنوکریٹس سے حکومت چلوائیں۔ نظام ایسا ہو جس میں بل پاس کروانے کیلئے حکومت کو کرپٹ جماعتوں کی ضرورت نا ہو۔ شائد یہ ھی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت 11 ماہ گزارنے کے بعد بھی عوامی مفاد والا ایک بل بھی اسمبلی میں پیش نا کرسکی۔ جیسے کے پولیس، صحت اصطلاحات اور عدالتی اصطلاحات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مارشل لاز اور جمہوریت کا مقابلہ کیا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان نے مارشل لاء کے ادوار میں کچھ ترقی کی مگر کچھ تباہی بھی ہوئی ہے اور پاکستان کی تباہی اس نام نہاد جمہوریت میں کچھ زیادہ ہوئی ہے۔ مگر پھر بھی مارشل لاءکے دور میں صدارتی نظام ہرگز”اسلامی صدارتی نظام“ نہیں تھا۔ وہ تو ڈکٹیٹر کا خودساحتہ نظام تھا اور جس میں صدر پہلے ہی سلیکٹڈ ہوتا تھا۔ دنیا مں کل 136 ممالک میں جمہوریت ہے جن میں سے 100 میں صدارتی نظام اور 36 میں پارلیمانی نظام ہے۔ صدارتی نظام میں فرانس ،ترتی سمیت امریکہ جیسے ممالک خوش حال ہیں۔

پارلیمانی نظام میں سینیٹ جسے ایوانِ بالا بھی کہا جاتا ہے کی مدت چھ سال ہے۔ اس میں بیٹھے سینیٹرز گزشتہ حکومت کے انتخاب کردہ ہوتے ہیں اور حکومت اس لیے بدلتی ہے کیونکہ عوام اسے ناقابل سمجھتے ہوئے ووٹ نہیں دیتی اور جسے عوام مسترد کر دے اسکے سینیٹرز کو قانون سازی کا اختیار کیوں ہوتا ہے پھر؟ ایسے نظام کا کوئی فائدہ نہیں جس میں عوام ووٹ کر کے اقتدار تحریک انصاف کو دے لیکن دو سال حکومت ایک بھی مرضی کا قانون بنانے میں ناکام ہو جائے کیونکہ سینیٹ میں اکثریت اپوزیشن کی ہے. یہ جو دو سال ضائع ہونگے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ اسی لئے ہم دنیا سے پیچھے ہیں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 48 سیکشن 5 آپ خود بھی پڑھ سکتے ہیں. وزیر اعظم جوائنٹ سیشن سے منظوری کے بعد عوام میں اسلامی صدارتی نظام کے متعلق ریفرینڈم کروا سکتا ہے، یہ بالکل آئینی عمل ہے۔

اسلامی صدارتی نظام کی اگر کوئی قریب ترین مثال دی جاسکتی ہے تو وہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ چاروں خلفائے راشدین اگر آج کی زبان میں بات کی جائے تو ”اسلامی صدر“ تھے۔ ان کے پاس انتہائی قابل ترین اور مخلص ترین ”ٹیکنوکریٹس“ کی ایک بڑی ٹیم تھی، ہر قابل شخص مشورہ دینے کے لائق تھا۔نیت بھی ہے اور اسلامی صدارتی نظام سے بہتر کوئی نظام بھی نہیں۔ رکشہ ڈرائیور سے لے کر کاروباری شخص تک ہر کوئی پریشان ہے۔ مارکیٹ سے پیسہ ایک دم غائب ہے۔ مہنگائی دن با دن زیادہ ہو رہی ہے، عوام کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ جمہوریت میں سست، ضمانتی سہولتوں سے بھرپور اور عدالتی ٹرائل کے دوران لمبی لمبی تاریخوں والے احتساب جس کے 3 خطرناک نقصانات:

1) ملزمان گواہوں اور شواہد پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

2) ملزمان سیاسی فنکاریوں سے عوام کو نیب/ریاست کے خلاف ابھارتے ہیں

3) عوام میں بے چینی اور نظام انصاف سے اعتماد اٹھ جاتا ہے

حساس معاملہ ہے ،توجہ کی ضرورت ہے۔اسلامی نظام حکومت میں کوئی لکھا ہوا دستور یا آئین نہیں ہوتا۔ قرآن و سنت، اجماع و اجتہاد ایک ایسے متحرک اور انقلابی نظام سیاست کی بنیاد رکھتے ہیں کہ جس میں آزاد قومیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اپنی آزادی اور غیرت برقرار رکھنے کیلئے ہر قسم کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتی۔ کچھ تجزیہ کار آپ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہے، اسلامک_صدارتی_نظام کو صدارتی نظام کے ساتھ مکس کر کے، کیونکہ اس نظام میں سارا قانون قرآن اور حدیث سے لے لیا جائے گا جبکہ عام صدارتی نظام میں انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہوتا ہے۔ریاستی آئین ہو یا پارلیمانی نظام، دونوں انسان کے تخلیق کردہ ہیں نہ کہ خدا کے۔ اگر انسان انہیں تخلیق کر سکتا ہے تو انسان انہیں تبدیل کیوں نہیں کر سکتا؟ بدبودار نظام کی جگہ صدارتی یا کسی اور جمہوری نظام پر بحث میں آخر برائی ہی کیا ہے؟ ریاست مدینہ اسلامک_صدارتی_نظام میں سود نہیں زکوۃ فرض ہو گی انشاللہ

اسلامی صدارتی نظام میں پارلیمان ضرور ہو گی، مگر ایسی پارلیمان کہ جس میں تمام قومی اداروں کی نمائندگی ہو۔ کسانوں سے لیکر مسلح افواج تک، ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والا ہر طبقہ اپنی نمائندہ تنظیموں کے ذریعے پارلیمان میں موجود ہو گا اور ملکی ترقی کے حوالے سے اپنے مشورے دے گا۔

صدارتی نظام میں بدمعاشوں کی چیخیں نکل سکتی ہیں اس ایک نظام سے نیا نظام، عدلیہ نئی، احتساب نیا سب کچھ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو گا۔   صدارتی نظام اسلام سے قریب تر ہے۔ آج اگر ہم خلافت کی بات کرے تو جو حال افغانستان کا ہوا ہے ہمارے سامنے ہے۔ صدارتی نظام کے ساتھ اگر ہم ساتھ ساتھ اسلامی قوانین بناتے جائیں گے تو پاکستان بنانے کا مقصد پورا ہو جاے گا۔ میرے مطابق اگر صدارتی نظام آتا ہے تو کوئی اپنی غلطیاں کسی پر نہیں ڈال سکتا جوڑ توڑ کرکے بنی کمزور حکومت عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ۔اگر آپ اسلامک صدارتی نظام کے حامی ہیں تو اسکے فوائد بتائیں اور اگر کوئی اس نظام کےخلاف ہے تو وہ مخالفت کی وجہ ضرور بتائے مگر وجہ بغضِ عمران یا نواز نا ہو۔