Get Alerts

ہم سے زیادہ عسکری قیادت جبری گمشدگیوں کے خلاف ہے،مگر وہ مجبور ہیں: رانا ثناء اللہ

ہم سے زیادہ عسکری قیادت جبری گمشدگیوں کے خلاف ہے،مگر وہ مجبور ہیں: رانا ثناء اللہ
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بڑا بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سے زیادہ عسکری قیادت جبری گمشدگیوں کے خلاف ہے مگر وہ مجبور ہیں ۔ باتیں پبلک نہیں کی جا سکتیں، اس سے لاپتہ افراد کے لواحقین کی دل آزاری ہوگی۔

آج ٹی وی کے پروگرام ''سپاٹ لائٹ'' میں لاپتہ افراد کے معاملے پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں، جتنا اس کو سمجھا جاتا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی حالیہ میٹنگ میں بھی اس معاملے پر بڑی کھل کر بات چیت کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حساس معاملہ ہے اور میٹنگ میں ہونے والی باتوں کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ عسکری قیادت ان گمشدگیوں کیخلاف ہے۔ ہم جتنی سوچ سمجھ رکھتے ہیں، اس سے زیادہ انہوں نے ایسے معاملات کی کھل کر مذمت کی۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت نے کہا کہ جبری گمشدگیاں نہیں ہونی چاہیں۔ اس پر پروگرام کی میزبان نے پوچھا کہ آخر ان کو کیا مجبوری ہے۔

https://twitter.com/MunizaeJahangir/status/1542065268196868102?s=20&t=zqq_XM8tmznlTfb8OfgaOg

اس کا جواب دیتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ان مجبوریوں کو پبلک میں ڈسکس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اندیشہ ہے کہ اس سے گمشدہ افراد کے لواحقین کی دل آزاری ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ ہے کہ ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص اب دنیا میں نہیں رہا تو اس کے بارے میں ان کے اہلخانہ کو سب سچ سچ بتا دیا جائے تاکہ وہ صبر شکر کر لیں۔

https://twitter.com/MunizaeJahangir/status/1542062655699144704?s=20&t=zqq_XM8tmznlTfb8OfgaOg

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس میں چیلنج درپیش ہیں اور اسے صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی حل کر سکتی ہے۔ لیکن تمام فریقین کو مل بیٹھنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر جتنے بھی لائے جائیں، انہوں نے گم ہی ہونا ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی حل نہیں ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں جبری گمشدگیوں کے کمیشن نے کوئی کام نہیں کیا اور اس کمیشن کو دوبارہ بننا چاہیے، اس کا سربراہ حاضر سروس جج کو ہونا چاہیے۔