'چور اور ڈاکو صرف اس لیے ہمارے ہیرو بن گئے کیونکہ ان کا مذہب اسلام تھا'

'چور اور ڈاکو صرف اس لیے ہمارے ہیرو بن گئے کیونکہ ان کا مذہب اسلام تھا'
دنیا بھر میں کامیابی کا معیار ایک ہی طرز پر ہے یا تو آپ اپنی ثقافت و روایات کے مکمل طور پر امین رہیں، اپنی زبان اور طرز پر دنیا بھر میں شناخت بنائیں یا پھر کسی ترقی یافتہ ملک و ملت یا ثقافت میں ضم ہو کر اس کے تابع ہو جائیں۔ مگر کبھی دنیا میں ایسی کوئی مثال کہیں نہیں ملتی کہ آپ بوقت ضرورت و مجبوری بیرونی ثقافت و سوچ کو اپنا لیں اور عام طرز میں خود کو اپنے آباؤ اجداد کی ثقافت کا پیروکار رہنے میں فخر محسوس کریں۔ پھر جب دل کرے تو ہر تہذیب و ملت سے اپنے لئے اپنے من پسند افراد کو خود پر مسلط کر کے ان کو اپنا ہیرو تصور کر لیں اور آنے والی نسلوں کو یہ پڑھائیں کہ تمہاری دھرتی کا ہیرو سمندر پار سے آیا تھا مگر افسوس تمہاری اپنی دھرتی میں موجود افراد میں سے نا تو تمہارا کوئی ہیرو ہے نا ہی کوئی رہنماء۔

افسوس اس بات پر ہے کہ برصغیر اور خاص کر پاکستان میں 75 سالوں سے یہ رویہ ہماری نسلوں میں آہستہ آہستہ زہر کی طرح گھول دیا گیا ہے اور مسلسل گھولا جا رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور اداکارہ عفت عمر کے بیان پر پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ "عفت عمر نے کہا کہ ہمیں اس کی توثیق کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری تاریخ ترکی کی نہیں, ہماری تاریخ برصغیر کی ہے، ہمیں فرضی کرداروں کی ضرورت نہیں، ہمیں سائنسدانوں کی کہانیوں کی ضرورت ہے۔"

حالانکہ ان کے کہنے میں خاص نشاندہی ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں عدم دلچسبی کی تھی مگر تاریخ ہمیں ٹیکنالوجی سائنس کے علاوہ بھی بہت گھمبیر صورتحال سے آگاہ کرتی ہے جس میں ہم نے ہمیشہ غیروں کو ہیرو صرف مذہب کی بنیاد پر قرار دیا ہے۔

خاص کر پاکستان کہنا اس لئے مناسب ہے کیونکہ یہاں تو برصغیر کے مشترکہ ہیروز کو بھی ماننے سے انکار کیا جاتا ہے جبکہ سمندر پار یا کئی سلطنتوں کے پار سے آئے لوٹیروں کو دھرتی کے افراد پر فوقیت دی جاتی یے۔

ہم پاکستانی بحیثیت قوم مجموعی کسی بھی فرد کو اپنا ہیرو تصور کرنے سے قبل اس کی خصوصیات کو پرکھنے کے قائل نہیں، ہمارے لیے اس کا مذہب ہی سب دلیلوں سے بھاری ہے، پھر چاہے وہ مسلمان ہو کر ڈاکو ، لٹیرا اور ظالم ہی کیوں نہ ہو، وہ ہمارا ہیرو ہے۔

اپنی دھرتی میں ہر قوم و مذہب کو برابری پر رکھنے والے امن پسند راجہ داہر کو ہمارے ہاں صرف اس بنیاد پر غلط اور ناچیز سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا جبکہ عرب سے آئے دنیا کہ مانے ہوئے ظالم ترین شخص حجاج بن یوسف جو اپنی سلطنت میں نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ سید زاوں کی جانوں کا دشمن تھا، اس کے خاص کارندے، اس کے بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ کرنا سیدزاوں کا مطالبہ کرنا جن کو جان کی امان راجہ داہر دئیے ہوا تھا مگر ہمارا ہیرو محمد بن قاسم اس لئے ٹھہرا کیونکہ اس کا مذہب مسلمان تھا۔

اپنے ملک میں امن و بھائی چارے سے رہنے والی سلطنتیں چاہے وہ مسلمان نوابوں کی ہوں، ہندو راجاوں کی یا سکھ سرداروں کی، وہ سب ہمارے ہیرو کبھی نہ بن سکے کیونکہ وہ امن پسند تھے اور سب کو ایک دوسرے کا حق دینے آزادی دینے کے قائل تھے مگر ہمارے ہیرو بنے کردستان، ازبکستان، افغانستان کے پار سے آئے لٹیرے چاہے وہ احمد شاہ ابدالی ہو چاہے وہ بابر مغل ہو جس نے یہاں آ کر قبضہ کیا اور کئی سو سال تک حکومت کی ایک نام محمود غزنوی کا بھی ہے یہ سب ہمارے ہیرو اس لئے بن گئے کیونکہ ان کا مذہب اسلام تھا۔

وہیں پنجاب کے شیر جوانوں کو ہم نے اس لئے پس پشت ڈال دیا کہ ان کا مذہب سکھ تھا چاہے وہ پنجاب کی دھرتی کا سورما راجہ رنجیت سنگھ ہو یا ہندو ، مسلم ، سکھوں کو انگریز سے آزادی دلوانے کے لئے صف اول کا جنگجو بھگت سنگھ، ہمارے نزدیک ان کی قدر کبھی نا ہو سکی کیونکہ ہم غیر ملکوں سے آئے لٹیروں کو تو اس لئے ہیرو ماننے کو تیار ہیں کیونکہ وہ مسلمان تھے مگر اپنی دھرتی کے سورما کو پس پشت ڈال بیٹھے ہیں کیونکہ وہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@