نیلما احمد درانی ہمہ گیر شخصیت کی مالکہ ہیں۔ پردیس میں اپنے ہم وطنوں سے ملاقات ہونا اچھا لگتا ہے اور اگر ایک صاحب علم ہستی سے ملاقات ہو جائے تو وہ سونے پہ سہاگہ کے مترادف ہوتا ہے۔ لندن کی ایک ادبی محفل جس کے میزبان نواز کھرل تھے، وہاں نیلما درانی صاحبہ سے ملاقات بہت خوش آئند رہی۔ انہوں نے اپنی کتاب 'تیز ہوا کا شہر' بھی پڑھنے کے لیے عنایت کی۔ یہ کتاب ایک مختصر سفرنامے، مضامین اور افسانوں پر مشتمل ہے۔ سفر نامہ، افسانے اور مضامین یہ تینوں اردو زبان و ادب کی مختلف اصناف ہیں جو الگ الگ جلدوں اور کتابوں کی صورت میں شائع ہوتے ہیں مگر نیلما درانی نے ان تینوں کو ایک ہی کتاب میں شامل کر کے ایک تجربہ کیا ہے۔
سفرنامہ، افسانے اور مضامین لکھنے کی تکنیک الگ الگ ہوتی ہے۔ اگر مصنف ان تینوں کو ایک ہی جلد میں شائع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کہ ہر ایک تحلیق کا حسن برقرار رہے اور اپنی انفرادیت برقرار رہے۔ نیلما درانی اس تجربے میں کامیاب رہی ہے۔
کتاب سفرنامے سے شروع ہوتی ہے جو آذربائیجان کا ہے جسے اردو ادب میں پرستان بھی کہا جاتا ہے۔ باکو آذربائیجان کا دارالحکومت ہے جو اعلیٰ ادبی و ثقافتی روایات کا علمبردار شہر ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں کے نام ادبیوں اور شاعروں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ نظامی، فضولی، اسماعیل خطائی، ان سب کی تصاویر بڑی پینٹنگز کی صورت میں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ وہ قومیں ہمشہ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہتی ہیں جو اپنے ادبیوں، شاعروں اور دانشوروں کو یاد رکھتی ہیں۔ باکو شہر اور ریاست آذربائیجان نے اپنے ان عظیم ثقافتی ہیروز کو یاد رکھا ہے۔ سفر نامہ لکھنے والے کو جس علاقے یا ملک کا سفر کرنا ہو وہاں کی تاریخ اور ثقافت کا ادراک ہونا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ جب وہ اپنے اس سفر کو تحریر کرتے ہیں تو ساتھ تاریخی حوالوں کا تذکرہ ضروری ہوتا ہے۔ نیلما درانی نے اس بات کا مکمل خیال رکھا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ مضامین پر مشتمل ہے جو مختلف شخصیات سے متعلق ہیں جن میں مولانا آغا نعمت اللہ جان، محسن نقوی جیسے لافانی شاعر، مبشر کاظمی، اقائے صادق گنجی، یونانی دیوتا عمران خان، فضل محمود، طارق عزیز، صدہقیہ بیگم، صبیحہ خانم اور امان اللہ شامل ہیں۔ ان کو ہم خاکہ نگاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ مختلف شخصیات جو الگ الگ شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھتی ہیں ان کو مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے۔ خاص طور پر عمران خان کا خاکہ جو اس کے کرکٹ کے عروج کے زمانے کا ایک قصہ ہے جب وہ قذافی سٹیڈیم میں میچ کھیلنے آتا تھا کمال ہے۔ محسن نقوی ایک ناقابل فراموش شاعر ہے جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ آج اردو شاعری کا ایک اساطیری کردار بن چکا ہے۔
کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں چھ افسانے ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقوں سے کہے گئے کرداروں کی جیون کتھا ہے جن کو ادبی کسوٹی پر پرکھ کر اعلیٰ ادب پارہ بنا دیا گیا ہے۔ یوں نیلما درانی نے ایک جلد میں سفر نامہ، افسانے اور مضامین لکھنے کا ایک شاندار تجربہ کیا ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔