سینیئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ عمران خان والا سارا معاملہ سکرپٹڈ ہے۔ یہ سکرپٹ 2011 میں لکھا گیا تھا اور اب اس کا آخری حصہ آ گیا ہے۔ یہ تاثر درست نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کو فوج کے اندر سے حمایت حاصل ہے ورنہ عمران خان فوج پر اتنی کھل کر تنقید نہ کرتے۔ حکومت جانے کے بعد عمران خان کا یہ مؤقف ہونا چاہیے تھا کہ میں نے پاکستان میں یہ یہ منصوبے مکمل کیے، ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا لہٰذا مجھے ایک موقع اور ملنا چاہیئے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا مؤقف یہ ہے کہ فوج مداخلت کرے اور مجھے اقتدار میں واپس لائے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ حکومت کے خلاف نہیں بلکہ آرمی کے خلاف ہے۔ تحریک انصاف کے حمایتی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آرمی کی کمزوری ہے جو ڈی جی آئی ایس آئی کو پریس کانفرنس کرنی پڑی۔ میرے خیال میں یہ خطرناک رجحان ہے۔ سیاست کو سیاست ہی رہنے دینا چاہیے۔ اس مرتبہ لانگ مارچ کا مرکز پنجاب ہے، عمران خان سندھ اور بلوچستان کو اپنے سیاسی ایجنڈے سے سیاسی طور پر منقطع کر رہے ہیں، یہ بہت خطرناک کھیل ہے۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں بلکہ مافیا ہے۔ فیصل واؤڈا، عمران خان، اعظم سواتی سبھی اس طرح کی باتیں کر چکے ہیں کہ ویڈیو ریکارڈ کر لی ہے اور بدلہ لے لیا جائے گا۔
معروف صحافی اور اینکر پرسن نادیہ نقی نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ چپ کر کے بیٹھے رہے اور عمران خان کو پورا موقع دیا کہ وہ اپنا بیانیہ بنا لیں۔ اب ان کا بیانیہ اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ لوگ سچ کو بھی نہیں پہچان رہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس جیسا غیر معمولی واقعہ بھی دیکھ لیا مگر عوام کو ان کی باتوں پہ بھی یقین نہیں آ رہا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اس مارچ سے مکمل طور پر باہر ہے۔ صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی کراچی میں ہی موجود ہیں۔ کیا یہ حقیقی آزادی صرف پنجاب میں آنی ہے؟ سندھ، بلوچستان کے لوگوں سے تو نمٹ لیا گیا ہے کیونکہ یہ سارے تو غدار ہی نکلتے ہیں۔ تو کیا اب سارے غدار پنجاب ہی میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ عمران خان سے زیادہ کسی ممکنہ فوجی مداخلت کا خوف حکومت کو زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ اگر لانگ مارچ میں حالات خراب ہوتے ہیں تو انہیں سنبھالنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ انتشار والی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پھر گیم کسی کے ہاتھ میں نہیں رہتی۔
نواز شریف نے کہا تھا کہ فوج ایک دن اپنی غلطی تسلیم کرے گی اور فوج اب یہ کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے حکومت کے پاس بھی تو کوئی پلان ہوگا، وہ اب پھر سے عمران خان کو پانچ سال کے لئے لائے جانے کی مںظوری نہیں دیں گے۔ ان مذاکرات کا فائدہ اب نواز شریف کو ہوگا۔
نیا دور کے ویب ایڈیٹر علی وارثی آج شہباز شریف کے ساتھ یوٹیوبرز کی ملاقات میں شامل تھے۔ انہوں نے پروگرام کے دوران بتایا کہ اس ملاقات میں شہباز شریف نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے ایک بڑے بزنس مین عمران خان کا پیغام لے کر ان کے پاس آئے تھے کہ ہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ "میں نے انہیں جواب دیا کہ اب آپ کو مذاکرات یاد آ رہے ہیں؟" شہباز شریف نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر بات نہیں ہو سکتی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی چیف نے پریس کانفرنس سے پہلے مجھ سے بات کی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر آئینی پوزیشن ہے، میں اسے نہیں ہٹاؤں گا اور نہ ہی میں انہیں ہٹا سکتا ہوں۔ وہ ایک قابل افسر ہیں۔
علی وارثی نے بتایا کہ آج کی میٹنگ میں شہباز شریف گھبرائے ہوئے نہیں لگے۔ انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے لانگ مارچ سے انتشار والی صورت حال پیدا ہوتی ہرگز نظر نہیں آ رہی، لوگ اگرچہ گھروں سے نکلے ہیں مگر ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ آج علی امین گنڈا پور کی آڈیو لیک میں جو باتیں ہوئی ہیں ان کی پی ٹی آئی کی جانب سے تصدیق بھی کر دی گئی ہے تو کیا اگر حکومت سپریم کورٹ میں جاتی ہے تو چیف جسٹس صاحب اس بار کوئی کارروائی کریں گے یا اب بھی پی ٹی آئی ہی کو رعایت مل جائے گی۔
پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ جب سے عمران خان کی نوکری ختم ہوئی ہے وہ کہتے ہیں اس ملک پہ چاہے ایٹم بم گرا دیں مگر پی ڈی ایم کو اقتدار نہیں ملنا چاہیے۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد سے فارغ ہو کر سندھ آئیں گے، پہلے محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تھا اور اب قاسم کا 'ابا' سندھ فتح کرنے آ رہا ہے۔ ان کے ساتھ محمود غزنوی نہ سہی، محمود قریشی ہی سہی۔ چونکہ یہ غلامی سے آزادی کا مارچ ہے تو شاید عمران خان کو لگتا ہے کہ صرف پنجاب اور پختون خوا کے لوگ ہی غلام ہیں، سندھ اور بلوچستان کے پہلے ہی آزاد ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پرامن احتجاج کو نقشوں، اسلحے، لائسنسوں اور کرائے کے بندوں کی ضرورت کیوں ہے؟
پروگرام کے میزبان رضا رومی نے خبر دی کہ عمران خان لانگ مارچ چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے ہیں۔ اس سے تاثر تو ابھرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مذاکرات ہو رہے ہیں۔