فکر حسینؓ ہر دور میں مرگِ یزید ہے

فکر حسینؓ ہر دور میں مرگِ یزید ہے
10 ہجری میں نبی آخر الزماں خاتم المرسلین حضرت محمّد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم کے وصال کے بعد خلافت راشدہ کا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شروع ہوا جو حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے ہوتا ہوا حضرت علیؓ اور پھر 6 ماہ کی قلیل مدت کے لئے حضرت امام حسنؓ تک پہنچا۔ پہلے تین خلفائے راشدین نے خلافت مدینہ سے چلائی جب کہ حضرت علیؓ نے کوفہ کو دارالحکومت بنایا۔ رسولؐ اللہ کی پیشین گوئی کے مطابق ’’اللہ میرے اس بیٹے (امام حسنؓ) کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا‘‘۔ یاد رہے کے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان 36 ہجری میں جنگ جمل (اونٹوں کی لڑائی) اور 37 ہجری میں جنگ سفین کی وجہ سے مسلمان دو گروہوں میں بٹ چکے تھے۔

حدیث کی روشنی میں حضرت امام حسنؓ حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے اور یوں اموی خلافت کا آغاز ہوا۔ 60 ہجری کا دور آیا تو دنیا بھر کے ظالم اور بدبخت لوگوں میں سے ایک حکمران یزید کی صورت میں سامنے آیا۔ یزید کو اپنے بدکردار ہونے کی وجہ سے اپنی بیعت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جو دو افراد اپنے اعلیٰ کردار، حسب نسب اور ہر حوالے سے اس سے بہترین تھے، ان كو اس نے اپنے اور اپنی حکومت کے لئے خطرہ محسوس کیا اور ہر قیمت پر ان کی بعیت حاصل کرنا چاہی۔

اس کے لئے اس نے ہر حربہ استعمال کیا۔ ان میں رسولؐ اللہ کے نواسے حضرت حسین ابن علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے نواسے عبدالله ابن زبیرؓ کو اپنی بعیت پر مجبور کیا لیکن دونوں نے انکار کر دیا۔ نام نہاد مولوی حضرات سے امام علی مقام علیہ سلام کے خلاف فتوے بھی دلوائے۔ حالات خراب سے خراب ہوتے چلے گئے تو حضرت امام حسینؓ نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ اللہ کی رضا اور مکہ و مدینہ پاک کی حرمت کے لئے ہجرت کا فیصلہ کیا۔

دوسری طرف کوفہ جس کو حضرت علیؓ نے مرکز حکومت بنایا تھا وہاں کے لوگوں نے امام عالی مقامؓ کو خطوط لکھ کر اپنی حمایت کا یقين دلایا لیکن آپ کے وہاں پہنچنے پر وعدہ خلافی کا مظاہرہ کیا۔ دو محرم 61 ہجری كو امام حسین علیہ سلام اپنے قافلے کے ساتھ کربلا میں داخل ہوئے۔ آپ نے دریا فرات کے کنارے ایک قطعہ اراضی تقریباً 60 درہم میں بنی اسد سے ’’اگر ہمیں شہید کر دیا جائے تو یہیں دفن کر دیجئے گا‘‘ کے معاہدے کے تحت خریدا۔

امن کی خاطر گھر بار سے دور بچوں اور خواتين کے ساتھ مہاجر بن کے بیٹھے خانوداہ رسولؐ کو بعیت پر مجبور کرنے کے لئے یزید نے ان پر حالات زندگی مزید تنگ کرنا شروع کر دیے۔ 3 محرم کو یزیدی فوج کے سپہ سالار عبید اللہ ابن زیاد کے حکم پر عمر بن سعد 40 ہزار کا لشکر لے کے کربلا میں داخل ہوا۔ 7 محرم کو امام حسینؓ اور ان کے رفقا پر پانی بند کر دیا گیا اور 9 محرم کو قاتلِ امام حسينؓ شمر مزید 40 ہزار فوجی اور ابن زیاد کا خط لے کے کربلا پہنچا جس کے مطابق اگر حسين ابن علیؓ سے ابن سعد جنگ نہیں کر سکتا تو فوج کی کمان شمر کے سپرد کر دے۔ عین وقت پر حر یزیدی فوج سے نکل کر حسینی ہو گیا۔

جب یہ واضح ہو گیا کہ یزید کے بھیجے ہوئے قاتل عدم بعیت کی صورت میں جنگ پر مصر ہیں تو 9 محرم کی رات امام عالی مقام نے اپنے رفقا کو کہا کہ یہ میرے قتل کے لئے تیار ہیں۔ آپ میں سے جو جانا چاہے، وہ چلا جائے۔ اس سے مجھے کوئی گلہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔

10 محرم کو امام نے اپنے فرزند حضرت علی اکبرؓ کو فجر کی اذان دینے کے لئے کہا اور آپ نے خود نماز پڑھائی۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ امام عالی مقام نے سب سے پہلے اپنے بڑھاپے کے سہارے شبیہ رسولؐ علی اکبرؓ کو میدان میں اتارا۔ ان کی شہادت کے بعد پے در پے شہادتيں ہوئیں جن میں امام حسن علیہ سلام کے صاحبزادے حضرت قاسمؓ، سیدہ زینبؑ کے لخت جگر عون و محمّد رضوان اللہ تعالی اجمعين، اور امام حسين کے 6 ماہ کے بھوک اور پیاس سے نڈھال بیٹے علی اصغرؓ، اپنے والد حضرت علیؓ کی شجاعت کی مثال والے بھائی حضرت غازی عبّاس سمیت دیگر 16 بھائی رضوان اللہ تعالیٰ اجمين راہ خدا میں قربان کرنے کے بعد بیمار کربلا امام زین العابدينؓ کو وصیت کرنے کے بعد خاتون جنت سیدہ النساء حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ کے لاڈلے نے میدان جنگ کا رخ کیا اور ڈٹ کر یزیدی فوج کا مقابلہ کیا۔

دوران نماز سجدے کی حالت میں شمر نے رحمت العالمینؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کو شہید کر دیا۔ شہدا کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ خیموں کو آگ لگا دی گئی۔ عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا گیا۔

سیدہ زینبؓ نے مقید بچوں اور عورتوں کی قیادت کرتے ہوئے یزید کے دربار میں کلمہ حق ادا کر کے بتا دیا کے آل نبیؐ اور اولاد علیؑ بلا تفریق جنس بہادر ہے۔

واقعہ کربلا سے سیکھنے کے لئے مذہبی، سیاسی اور انقلابی طرز پر بہت کچھ ہے۔ حسين ابن علیؓ نے یہ درس دیا کہ حکمران اگر غلط ہو تو اس کی بعیت نہ کرو اس کے خلاف ڈٹ جاؤ، کسی طاقتور سے ڈرو مت، اسے للکارو، حکمرانوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے مولوی کے فتویٰ سے گھبراؤ مت، عین وقت پر لوگوں کی وعدہ خلافی سے پریشان نہ ہو، اپنے نظریات واضح اور اپنے عمل اگر مگر سے پاک رکھو۔ غاصب اور ظالم کے سامنے کلمہ حق ہر حال میں کہو، کبھی بھی ظالم کی فوجی طاقت سے خوفزدہ نہ ہو، اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی رضا اور دین کی سربلندی کے لئے کسی قیمت پر پیچھے نہ ہٹو، چاہے اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے اولاد کو بھائیوں كو یا بھانجے، بھتیجے حتیٰ کہ اپنی جان بھی کیوں نہ قربان کرنی پڑ جائے۔ جب طاقت کے نشے میں مست حاکم اسلحے اور افرادی قوت کے بل پہ آپ کو دبانے کی کوشش کرے تو اس کے سامنے سینہ تان کے کھڑے ہو جاؤ، چاہے سب کچھ مٹ جائے۔ کوئی پروا نہیں۔

جب کہ ہم نے کیا سیکھا؟ فرقہ بازی، نفرت انگیز بیانات۔ آج چند احباب اٹھیں گے اور ہميں بتائيں گے کہ یزید یہ سب نہیں چاہتا تھا، اس نے امام حسينؓ کو شہید نہیں کروایا، شمر اور ابن زیاد پر اس نے غصہ کیا تھا وغیرہ۔ اگر ایسا تھا تو اس کے بعد وہ کیوں عبداللہ ابن زبیرؓ کے پیچھے مدینہ گیا اور نبیؐ کریم کے شہر کی حرمت کو پامال کیا؟ اس نے مسجد نبویؐ کو اصطبل کیوں بنایا؟ اس کی فوج نے کیوں مدینے کی خواتین کی عزتيں لوٹیں؟ کیوں بزرگ صحابہؓ کرام کو شہید کیا؟

غم حسینؓ مناتے ہوئے یہ ذہن نشین رکھیے گا کہ حسین ابن علیؓ  کی لڑائی ظالم کے خلاف تھی، انہوں نے آخری وقت تک امن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور ظالم حاکم اگر اپنی روش ترک نہ کرے تو پھر حکومت کے خلاف لڑنا لازم ہو جاتا ہے۔ حاکم ہمیشہ عزت دار ہو یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اللہ پاک نے ایک ہی سورہ آل عمران میں دو مختلف جگہ فرمایا کہ ’’ہم جس کو چاہيں بادشاہی دیں، جسے سے چاہیں چھین لیں‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا کہ ’’وہی اللہ ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔‘‘ یزید حکومت لے کے بھی ذلیل اور امام حسين علیہ السلام انکار کر کے سرفراز و فیض یاب و کامران ہو گئے۔