'سائفر کیس میں عمران خان کو جلد سزا، عمرانداروں کا سردار بھی 9 مئی میں ملوث'

انہوں نے چیف جسٹس کا نام لیے بغیر کہا کہ چونکہ 9 مئی کو ملک میں بغاوت کی کوشش کی گئی، ایک منظم سازش کے تحت سب معاملات مکمل ہوئے، سہولت کاری بھی کی گئی تو اس میں سب سے بڑا 'عمران دار' اور اس کے اہل خانہ بھی ملوث ہیں۔ چند ہی دن رہ گئے ہیں، چھوٹے بڑے تمام 'عمران داروں' کی کرپشن کھل کر سامنے آ جائے گی۔

'سائفر کیس میں عمران خان کو جلد سزا، عمرانداروں کا سردار بھی 9 مئی میں ملوث'

عمران خان اب چیف جسٹس کے حکم پر بھی جیل سے باہر نہیں آ سکیں گے، ان کو سائفر کیس میں ممکنہ طور پر 7 سال کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ بعض وکیل یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کیس میں عمران خان کو عمر قید یا سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ دعویٰ کیا ہے صحافی حسن ایوب نے۔

یوٹیوب پر اسد علی طور کے ساتھ وی-لاگ میں حسن ایوب کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کے حمایتی یہ سوچ رہے تھے کہ آج وہ مٹھائی لے کر اٹک جیل جائیں گے اور وہاں سے ان کی رہائی کے آرڈرز مل جائیں گے لیکن آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت سائفر کیس میں ان کو پہلے سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سائفر کیس میں 30 اگست تک ان کا جوڈیشل ریمانڈ دیا گیا تھا جبکہ آج ان کے ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع بھی ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ایک ماہ سے ایک سال تک رہائی مشکل نظر آ رہی ہے کیونکہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت جو ترامیم ہوئی ہیں ان کے تحت خصوصی عدالت نے 30 دن کے اندر اندر ٹرائل مکمل کرنا ہے۔ لہٰذا توقع ہے کہ جتنے ثبوت موجود ہیں سائفر کیس کا ٹرائل 30 دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا اور جس طرح عمران خان نے سائفر کے معاملے پر کھیلا ہے ان پر فرد جرم عائد ہو جائے گی۔

سزا کے دورانیے سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم بعض وکلا کا کہنا ہے کہ عمران خان کو 2 یا 3 سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ چند دیگر وکلا کی رائے ہے کہ انہیں 7 سال کی سزا یا پھر عمر قید بھی ہو سکتی ہے۔ جبکہ دیگر وکلا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی کو سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔ ایک عدالتی نظیر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایک برگیڈیئر کو سزائے موت بھی ہوئی تھی اور ایک جنرل صاحب کچھ عرصہ قبل ہی سزا مکمل کرنے کے بعد جیل سے باہر آئے ہیں۔

عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان 164 کا اقبالی بیان دے چکے ہیں جس کے مطابق عمران خان نے سیاسی مفاد کے لئے سائفر پر کھیلا۔ ان کی اس کیس میں گواہی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پھر ان کی آڈیو بھی بہت بڑا ثبوت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی سائفر کا بوجھ اٹھاتے ہیں یا عمران خان پر ڈالتے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر عمران خان کی سزا کی طرف اشارہ ہے۔

حسن ایوب نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا نام لیے بغیر بتایا کہ سائفر والے معاملے پر ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جو عمران خان کے خلاف گواہی دے دیں گے۔ ان کے 'پیرنٹ ادارے' کی جانب سے کوشش ہو رہی ہے تو اس صورت میں خان صاحب کا سوا ستیاناس ہو جائے گا۔ اس اہم شخصیت کی 48 گھنٹوں میں گرفتاری کی افواہیں تو چل رہی ہیں لیکن میری اطلاعات کے مطابق گرفتاری کا امکان نہیں۔ انہیں سمجھا کر عمران خان کے خلاف گواہی کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے۔

سائفر کے علاوہ عمران خان پر 9 مئی والا کیس بھی ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ ان کے خلاف اہم ثبوت بھی موجود ہیں اس لیے اس کیس میں بھی ان کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ عام انتخابات سے قبل کم از کم تین مقدمات میں عمران خان کو سزا سنا دی جائے گی۔

انہوں نے چیف جسٹس کا نام لیے بغیر کہا کہ چونکہ 9 مئی کو ملک میں بغاوت کی کوشش کی گئی، ایک منظم سازش کے تحت سب معاملات مکمل ہوئے، سہولت کاری بھی کی گئی تو اس میں سب سے بڑا 'عمران دار' اور اس کے اہل خانہ بھی ملوث ہیں۔ چند ہی دن رہ گئے ہیں، چھوٹے بڑے تمام 'عمران داروں' کی کرپشن کھل کر سامنے آ جائے گی۔

القادر ٹرسٹ سمیت دیگر مقدمات طوالت کا شکار ہوں گے۔ ان میں گرفتاری تو متوقع ہے لیکن ابھی فرد جرم عائد نہیں ہو سکے گی۔

توشہ خانہ کیس میں نااہلی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے وکلا عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ توشہ خانہ کیس کی سزا صرف معطل ہوئی ہے، کالعدم نہیں ہوئی۔ جب تک اپیلوں پر فیصلہ نہیں آتا، ان کی نااہلی برقرار رہے گی۔

سابق چیف جسٹس صاحبان ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے حسن ایوب نے کہا کہ جب آپ ملک کے ساتھ مذاق کرتے ہیں تو پھر اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور جب آپ اس حد سے تجاوز کر جائیں تو پھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن کم از کم ان دونوں سابق چیف جسٹس صاحبان نے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کیا تھا جبکہ موجودہ چیف جسٹس نے تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ چیف جسٹس کو اندازہ تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے عمران خان کو بھرپور ریلیف دیا، ان کی ضمانت کروا دی لیکن سائفر معاملے میں ریمانڈ میں توسیع کے بعد اب ریلیف دینا بھی ان کے بس میں نہیں رہا۔ اب عمران خان چیف جسٹس کے حکم سے بھی باہر نہیں آ سکیں گے۔ کم سے کم عمران خان 8 ماہ سے 2 سال تک جیل میں رہیں گے۔

عمران خان کی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ آج ایسا لگ رہا ہے کہ خان صاحب کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ کل وہ زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آئیں لیکن یہ لوگوں کی ترجیحات پر منحصر ہے۔ بنیادی طور پر پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی سٹرکچر تو ہے نہیں، یہ تو عمران خان کا 'فین کلب' ہے، عمران خان کی غیر موجودگی میں اس کے انٹیکٹ رہنے کا امکان بہت کم ہے۔ آئندہ ہفتوں میں اس پارٹی کے مزید لوگ پریس کانفرنسز کریں گے اور پارٹی کو خیرباد کہہ دیں گے۔

صدر عارف علوی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی ٹرم 9 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے، اس کے بعد وہ چلے جائیں گے۔ ان کو گارڈ آف آنر دیا جائے گا اور گھر بھیج دیا جائے گا۔ آخری دنوں میں وہ اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔