علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطبہ جمعہ میں آیت اللہ نجفی کی شخصیت کے بارے پہلے تو یہ کہا کہ نجفی صاحب ایک مؤثر، فعال، متحرک اور منفرد فرد تھے۔ انہوں نے عوام پسند کی جگہ خدا و اہل بیت پسند باتیں بتائیں، من گھڑت باتوں کی جگہ علمی کتابوں، فقہا اور اہل بیت کی باتیں کہیں۔ باقی علما کے برعکس جرات دکھائی اور مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ وہ مصلح اور عقیدتی دینی سرحدوں کے محافظ تھے۔ گالی گلوچ، لشکروں کے مقابل استقامت سب علما کیلئے نمونہ تھی۔ اس کے بعد سید جواد نقوی نے آیت اللہ نجفی پر مختلف اعتراضات لگائے۔
تصوف کی مخالفت یا تکفیر؟
پہلا اعتراض یہ تھا کہ نجفی صاحب نے کتابچہ تحفہ صوفیہ کی تقریظ میں امام خمینی کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج لکھا تھا۔ یہ تقریظ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس میں تو ڈھکو صاحب نے امام خمینی اور انقلاب کی تعریف و حمایت میں اس صوفی ازم، جو صفوی دور سے شروع ہوا اور آج بھی ایران میں موجود ہے، کے خلاف امام خمینی کی کامیابی کے لیے دعا کی ہے۔ (1)
یہ ایک تہمت کے سوا کچھ نہیں۔ علامہ محمد حسین صاحب نجفی کی کتابیں اور تقریریں امام خمینی اور انقلاب اسلامی کی حمایت اور تائید کے اظہار سے بھری پڑی ہیں۔
اسی طرح ڈھکو صاحب نے تو امام خمینی سے بھی بڑے فیلسوف و عارف ملا صدرا سے اختلاف کے باوجود ان کی تعریف میں اپنی کتاب احسن الفوائد کے صفحہ 47 پر لکھا کہ:
' ملا صدرا متقی، پرہیزگار، حکیم و فیلسوف تھے اور ان کی کتاب اسفار اربعہ حکما و فضلا سے خراج تحسین لے چکی ہے'۔
یاد رکھیں علما کرام دوسرے علما کی کبھی بھی نہ تو بالجملہ تائید کرتے ہیں اور نہ مخالفت، بلکہ بزرگانِ دین کی مختلف علوم یا شخصیات کے بارے میں نظر ہمیشہ فی الجملہ ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نجفی صاحب، ابنِ عربی، ملا صدرا اور امام خمینی کے تصوف و عرفان کے بعض پہلوؤں سے اختلاف رکھتے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے حضرات آیات عظام و مراجع اسحاق فیاض (2)، صافی گلپایگانی (3)، مکارم شیرازی (4)، وحید خراسانی (5)، سیستانی (6)، شہید صدر اور سینکڑوں دیگر فقہا مختلف جہات سے بعض صوفیانہ فلسفی اور عرفانی مباحث کو درست نہیں مانتے۔ اور یہی اختلاف آرا عظیم جرمن فلسفی ہیگل کے ڈیالکٹیک اصول کے مطابق علم کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن تکفیر والی بات سوائے جھوٹ اور تہمت کے کچھ نہیں۔
امام خمینی کا مؤقف کیا تھا؟
امام خمینی نے تو آیت اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی کی کتاب العروة الوثقی پر حاشیہ لگایا ہے۔ اس کے صفحہ 37 پر بصورت مشروط وہ صوفی جو وحدت الوجود کے قائل اور اس کے بعض لوازمات سے ملتزم ہوں، ان کی نجاست کا حکم لگایا گیا ہے:
القائلين بوحدة الوجود من الصوفيّة إذا التزموا بأحكام الإسلام، فالأقوى عدم نجاستهم إلّا مع العلم بالتزامهم بلوازم
' وحدت الوجود کے قائل صوفیا اگر احکامِ اسلام کے پابند ہوں تو بہتر یہی ہے کہ ان کو نجس نہ سمجھا جائے، مگر یہ کہ ان کے اس کے لوازمات میں مبتلا ہو جانے کا علم ہو جائے'۔
لوازمات کی وضاحت کرتے ہوئے امام خمینی حاشیے میں لکھتے ہیں کہ:
إن كانت مستلزمة لإنكار أحد الثلاثة (7)
یعنی اگر وحدت الوجود کے قائل صوفی الوہیت، توحید یا رسالت میں سے کسی ایک کے منکر ہو جائیں تو نجس ہیں۔
صوفی بمقابلہ اخباری
استاد محترم! اگر نجفی صاحب کا عرفاء کو صوفی کہنا غلط ہے تو جنابِ عالی کا ان کو اخباری کہنا کیسے ٹھیک ہے؟
مشترک معنوی الفاظ ہوں یا تشکیکی مراتب والی اصطلاحات، ان کے معنی مشخص کئے بغیر استعمال کرنا اور طعنہ زنی، عوام کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستان میں ایک گروپ ہے جو اپنے آپ کو اخباری کہتا ہے۔ جو مراجع عظام، تقلید، اجتہاد کے سخت مخالف ہیں۔ اب کیا ڈھکو صاحب ایسے اخباری ہیں؟
شیعہ علمی روایت میں اخباری وہ ہوتا ہے جو تقلید ابتدائی کیلئے مردہ فقہاء کی طرف رجوع جائز سمجھتا ہے۔ اب کیا نجفی صاحب ایسے اخباری تھے؟
فقہ میں اخباری وہ ہوتا ہے جو عقل و اجماع کو قبول نہیں کرتا اور ظاہر قرآن کی جگہ بھی اخبار محمد و آل محمد کو ترجیح دیتا ہے۔ جبکہ ڈھکو صاحب کی کتابوں میں احکام کے چار منابع قرآن، حدیث، عقل اور اجماع، سب کو قبول بھی کیا گیا ہے اور ان سے استناد بھی موجود ہے۔ اسی طرح اخباری قبح عقاب بلا بیان حق الطاعہ جیسے اصولوں کو قبول نہیں کرتا۔
آیت اللہ نجفی نے پاکستان ہو یا نجف، اصولِ فقہ کے حصول اور پھر نشر و اشاعت کے لیے شاگرد تیار کیے اور ان کے شاگردوں میں ابھی بھی علم اصول کے استاد موجود ہیں۔
اخباری کتبِ اربعہ میں احادیث کی صحیح، حسن، موثق، ضعیف کی تقسیم پر زیادہ راضی نہیں ہوتے اور ضعیف ترین حدیث کو عقلی ادلہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ علامہ صاحب کی کتابیں عقلی ادلہ ہوں یا ظاہر قرآن سے دلائل، دونوں سے بھری پڑی ہیں۔ اور انہوں نے اپنے غالی مخالفین اور عرفاء کے ضعیف احادیث سے استناد کو بھی رد کیا ہے۔
کیا آیت اللہ نجفی غلو پسند کرتے تھے؟
سید جواد نقوی نے اپنی گفتگو میں حضرت آیت اللہ محمد حسین نجفی مرحوم کے بارے میں ایک مغالطہ بھی استعمال کیا ہے۔ غالی اسے کہا جاتا ہے جو وہ ہے جو محمدؐ و آلِ محمدؑ کو اللہ کے ساتھ ملائے۔ سید جواد نقوی نے کہا کہ نجفی صاحب نے ساری زندگی غالیوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن اپنی ذات میں غلو پسند کرتے تھے۔ یوں ان کو غلو پسندوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ یوں مغالطہ کل و جز کے ذریعے منفی پراپیگنڈا کیا۔
جبکہ سوشل میڈیا پر نجفی صاحب کے کلپس موجود ہیں جہاں وہ لوگوں کو اپنی تعریف کرنے یا ہاتھ چومنے سے روکتے ہیں۔
انہیں یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کا معتدل اور سلجھا ہوا طبقہ اکثریت کے باوجود اپنی عزت بچا کر خاموش بیٹھا ہے اور ہر طرف سیاسی مذہبی لحاظ سے افراطی ذہنیت والے افراد کا قبضہ ہے۔
ان سیاسی مذہبی گروپس نے ایسا نظام و افراد تیار کیے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی ان کی پالیسیوں یا لیڈرز سے اختلاف کرے اس کی ایسی کی تیسی کر دیں گے۔
مفتی جعفر حسین بھی تصوف کے ناقد تھے
ایک قابل توجہ نکتہ یہ بھی کہ استاد محترم نے جب حضرت آیت محمد حسین نجفی مرحوم کا نام لیا تو فقط کہا مولوی محمد حسین نجفی، جبکہ اگلے جمعہ پر جب مفتی جعفر حسین مرحوم پر گفتگو کی تو ان کو آیت اللہ کہا اور ساتھ میں دلیل بھی دی کہ انہوں نے نہج البلاغہ کا ترجمہ کیا ہے۔
اب جو نہج البلاغہ کا ترجمہ کرے وہ آیت اللہ اور جو قرآن پاک کی تفسیر لکھے، وسائل الشیعہ جیسی کتاب کا مترجم و شارح ہو اور جس کا کلام و فقہ و سیرت میں اپنا ذاتی قلمی کام ان سے کہیں زیادہ ہو وہ آیت اللہ نہیں؟
نَہْلے پَر دَہْلا یہ کہ مفتی جعفر حسین صاحب کا صوفیا و عرفان کے بارے میں مؤقف تو نجفی صاحب سے بھی زیادہ سخت تھا۔ (8)
***
حوالہ جات:
1۔ مولانا نعمت علی سدھو، 'تحفہ صوفیہ'، طبع اول، صفحات 12 – 15، مکتبۃ الثقلین، فیصل آباد۔
2۔ آیت اللہ اسحاق فیاض کی رائے
3۔ آیت اللہ صافی گلپائگانی کی رائے
4۔ آیت اللہ مکارم شیرازی کی رائے
5۔ آیت اللہ وحید خراسانی کی رائے
7۔ امام خمینی، تعلیق بر عروةالوثقی، ص 37، باب نجاسات
8۔ مفتی جعفر حسین، 'ترجمہ نہج البلاغہ'، خطبہ 207، صفحہ 503 تا 506، معراج کمپنی، لاہور، 2003