پاکستانی کرنسی ذخیرہ کرنے والوں کے لیے بری خبر ہے کہ سٹیٹ بینک ( ایس بی پی) نے پاکستانی نوٹوں کو عالمی سکیورٹی فیچرز کے ساتھ لانچ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
کراچی سٹیٹ بینک میں مانیٹری پالیسی کے اعلان کے بعد گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا تھا کہ پاکستانی کرنسی کو محفوظ بنانے کے لیے اہم اقدامات کرنے جا رہے ہیں۔
گورنر سٹیٹ بینک نے بتایا کہ نئے نوٹوں کو بین الاقومی سیکیورٹی فیچرز کے تحت چھاپا جائے گا۔ نئے نوٹوں کو رنگ، سیریل نمبرز، ڈیزائن اور ہائی سیکیورٹی فیچرز کے ساتھ متعارف کرایا جائے گا۔
جمیل احمد نے کہا کہ تمام نئے نوٹوں کے ڈیزائن کا فریم ورک شروع ہوچکا ہے، امید ہے مارچ تک مکمل ہوگا۔
خیال رہے کہ مارکیٹ میں 1 ہزار، 5 ہزار کے جعلی نوٹ زیر گردش ہیں جس کی وجہ سے شہریوں اور مالیاتی اداروں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے گزشتہ ماہ ہونے والے اجلاس میں بھی سٹیٹ بینک کے حکام پانچ ہزار کے جعلی نوٹ کی شناخت نہیں کرسکے تھے۔
قبل ازیں، حکومت نے مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے شرح سود 22 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ مہنگائی میں بتدریج کمی آئے گی۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی جاری کردی۔ گورنر نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں مانیٹری پالیسی کمیٹی نے معاشی صورتحال کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ شرح سود آئندہ دو ماہ کے لیے بائیس فیصد کی سطح پر برقرار رہے گی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
انہوں نے کہا کہ بیرونی اکاؤنٹ میں کافی بہتری آئی جو زرمبادلہ کے ذخائر سے ظاہر ہورہی ہے۔ جولائی میں آئی ایم ایف معاہدے کے وقت زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے زیادہ رہے جو اب 8.3 ارب ڈالر ہیں۔ اس دوران 6.2 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے بھی ادا کیے اور ان ادائیگیوں کے باوجود ذخائر میں 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
انہوں ںے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 22 کے مالی سال میں 17.5 ارب ڈالر رہا جو 4.7 فیصد کی ڈی پی کا تھا۔ گزشتہ سال حکومت اور سٹیٹ بینک کے اقدامات سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.6 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا جو جی ڈی پی کا 0.7 فیصد پر آگیا تھا۔ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 0.8 ارب یعنی 800 ملین ڈالر رہا۔ جنوری میں بھی کمی کا تسلسل جاری ہے۔
گورنر نے کہا کہ اس وقت کرنٹ اکاونٹ کنٹرول میں ہے۔ اس سال جاری کھاتے کا خسارہ 0.5 سے 1.5 فیصد جی ڈی پی کے برابر رہے گا۔رواں مالی سال اور آئندہ سال کافی ادائیگیاں کرںی ہیں۔ جاری کھاتے پر دباؤ موجود ہے، اگرچہ رسک کم ہوا ہے۔
جمیل احمد نے مہنگائی کے حوالے سے کہا کہ مئی 2023ء میں 38 فیصد افراط زر رہا، اس کے بعد سے افراط زر کم ہوا لیکن اب بھی یہ بڑھا ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ 29 فیصد رہا، رواں ماہ افراط زر گزشتہ ماہ سے تھوڑا کم رہنے کی توقع ہے۔ تاہم مارچ سے افراط زر میں بتدریج کمی آئے گی۔ یعنی آنے والے مہینوں میں افراط زر میں کمی کی رفتار بڑھ جائے گی۔
جمیل احمد کا کہنا تھا کہ کاروباری اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، اس کی جھلک معاشی سرگرمیوں سے ملتی ہے۔ صنعتوں کی پیداوار گنجائش بروئے کار لانے میں بہتری آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی قرض کی ضرورت بڑھی ہوئی ہے جو بینکوں سے پوری کی جارہی ہے۔ حکومت کی قرض گیری میں کچھ کمی آئی ہے۔ بینکوں کے ڈپازٹس میں بھی بہتری آرہی ہے۔ آئی ایم ایف نے سٹاف رپورٹ میں پاکستان کی مانیٹری پالیسی کے لیے کوئی شرط نہیں رکھی۔