Get Alerts

وزیراعلیٰ امین گنڈاپور صاحب کے نام خط

وزیراعلیٰ صاحب، آپ اب چانسلر بن گئے ہیں، سرخ اور سفید کے مکمل مالک بن گئے ہیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ ساری یونیورسٹیوں میں مسائل ہیں اور اتنے شدید ہیں کہ رونا آتا ہے، ہر یونیورسٹی تباہی کے دہانے پر ہے، گزشتہ دور حکومت میں بھی تباہی ہوئی، مگر نگران حکومت آئی تو انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا

وزیراعلیٰ امین گنڈاپور صاحب کے نام خط

وزیراعلیٰ امین  گنڈاپور صاحب،سلامونہ! 

  آپ جنگ جیت گئے، تمام یونیورسٹیاں اب آپ کے زیر تسلط آگئی ہیں، آپ صوبے کے سب محکموں کے کرتا دھرتا تھے مگر یونیورسٹیاں گورنر کے کنٹرول میں آتی تھیں۔ یہ پتہ نہیں کیوں کیا گیا تھا کہ دو ہزار کے بعد جب یونیورسٹیاں بنائی گئیں تو چانسلر کا عہدہ گورنر کے پاس آیا اور وزیراعلیٰ صرف سفارشات بجھواتا تھا۔ اگر گورنر کی مرضی ہوتی تو وہ ہوجاتا اور اگر نہیں تو وہ اعتراضات کے ساتھ واپس کرتا۔ یوں معاملے لٹک جاتے۔

 میں تو حیران ہوں کہ دو ہزار سے کسی بھی حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ گورنر کے پاس آخری پاور کیوں ہے حالانکہ گورنر تو کٹھ پتلی ہی ہوتا ہے۔ سارے محکمے تو وزیراعلیٰ دیکھتا ہے، منسٹر بھی وزیراعلیٰ کے ماتحت ہوتے ہیں کیونکہ جو بر سر اقتدار ہوتے ہیں، سارے وزیر اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ مگر کسی نے بھی یہ نہیں سوچا، حتیٰ کہ بیوروکریسی نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی اور گورنر یونیورسٹیوں کے چانسلر کے مزے لیتا رہا۔ ہر یونیورسٹی کے آفیشل پیج پر گورنر کی تصویر لگی ہوتی اور کانووکیشن میں وہ مہمان خصوصی ہوتا۔

25 سال بعد آپ کی کابینہ نے ایکٹ میں تبدیلی کا مسودہ پیش کیا، جو کہ ایک اچھی کوشش تھی۔ اس سے پہلے بھی یہ ہوسکتا تھا کہ پاور وزیراعلیٰ کے پاس ہوتے، مگر گورنر شاہ فرمان، وزیراعلیٰ پرویز خٹک تھے، اور ہائیر ایجوکیشن کے منسٹر کامران بنگش ہوتے تھے۔ یعنی سارے اپنے تھے، اس لئے پاور تقسیم تھی اور وہ یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شاہ فرمان آپ کی پارٹی کے ہیں، اس کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔

 اب مدعا پر آتے ہیں، وزیراعلیٰ صاحب، آپ اب چانسلر بن گئے ہیں، سرخ اور سفید کے مکمل مالک بن گئے ہیں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ساری یونیورسٹیوں میں مسائل ہیں اور اتنے شدید ہیں کہ رونا آتا ہے۔ ہر یونیورسٹی تباہی کے دہانے پر ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی تباہی ہوئی، مگر نگران حکومت آئی تو انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔

 جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں، صوبے کی متعدد جامعات اس وقت مستقل وائس چانسلرز کی عدم موجودگی کی وجہ سے شدیدبے انتظامی  اور مشکلات کا شکار ہیں۔ مختلف ذرائع کے مطابق، خیبر پختونخوا کی 12 جامعات بغیر وائس چانسلر کے چل رہی ہیں، جن میں وومن یونیورسٹی صوابی، خوشحال خان یونیورسٹی، لکی مروت یونیورسٹی، اور انجینئرنگ یونیورسٹی نوشہرہ شامل ہیں۔ اسی طرح، دیگر ذرائع کے مطابق، صوبے کی 8 جامعات مستقل وائس چانسلرز سے محروم ہیں، جن میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، بنوں یونیورسٹی، فاٹا یونیورسٹی، خیبر میڈیکل یونیورسٹی، کوہاٹ یونیورسٹی، باچا خان یونیورسٹی چارسدہ، اور ٹیکنیکل یونیورسٹی نوشہرہ شامل ہیں۔

 ان جامعات میں مستقل قیادت کی عدم موجودگی سے تعلیمی اور انتظامی امور میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، جس کا براہِ راست اثر طلبہ، فیکلٹی ممبران اور دیگر سٹاف پر پڑ رہا ہے۔ تنخواہوں کی ادائیگی، یوٹیلیٹی بلز کی منظوری، اور دیگر مالی و دفتری امور میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت انیس یونیورسٹیاں بغیر پائلٹ کے ہوا میں چل رہی ہیں اور بغیر پائلٹ کے جہاز کا مقدر گرنا ہی ہوتا ہے۔ تو یہ یونیورسٹیاں گرنے کے قریب ہیں اور آپ اس کے لئے انجن کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

 گزشتہ روز پہلا نوٹیفکیشن بحیثیت چانسلر آپ کا موصول ہوا، جس میں گورنر صاحب کے پہلے کئے گئے نوٹیفکیشن کو آپ نے ختم کرکے جوتے کی نوک پر رکھ دیا۔ اچھا کیا، اس نے سارے اپنوں کو نوازا تھا۔ یونیورسٹیوں میں سینڈیکیٹ اور سینیٹ کے ممبران اپنی مرضی کے لگائے تھے۔ آپ کے پہلے نوٹیفکیشن سے ہی وہ زمین بوس ہوگیا۔ اب امید کرتے ہیں کہ آپ میرٹ پر لوگوں کو لائیں گے اور ہماری خواہش ہے کہ اب جو دوسرا نوٹیفکیشن ہو، وہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کا ہو  تو فیکلٹی ممبران سمیت خاص کر طلبہ آپ کو دعائیں دیں گے۔

 باتیں بہت ہیں، وہ پھر کبھی سہی، مگر اب دوسرا نوٹیفکیشن وائس چانسلرز کی تعیناتی کا کردیں، بڑی مہربانی ہوگی۔

 آپ کا مخلص،

اے وسیم خٹک

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔