اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے کم از کم پچاس فیصد مسائل کا حل مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے۔ پاک بھارت کشیدگی آئے روز کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے، جس کہ وجہ سے دونوں ممالک کے معاشرے میں نفرت، عدم برداشت اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس کشیدگی کی وجہ سے دفاعی اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور جو پیسہ عوام کی فلاح و بہبود اور غربت کے خاتمے پر صرف ہونا چاہیے وہی پیسہ گولیاں اور بارود چلا کر ایک دوسرے کا لہو بہانے پر خرچ ہو رہا ہے۔
اسی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سب مصائب کی جڑ یقینناً مسئلہ کشمیر ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اس سے خطہ کشمیر کی پاکستان کے لیے اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب اگر غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو یہ اہمیت صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کے نزدیک کشمیر کا جغرافیائی اور علاقائی مقام بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 5 اگست 2019 کو متعصب بھارتی وزیراعظم مودی نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کشمیر کے متنازعہ مقبوضہ علاقہ کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کر کے دونوں ممالک میں پائی جانے والی نفرت اور کشیدگی کو مزید ہوا دے دی۔
یہ آرٹیکل بنیادی طور پر ریاست کشمیر کو اپنا الگ آئین، الگ جھنڈا اور دیگر قوانین بنانے کی آزادی فراہم کرتا تھا۔ اس آرٹیکل کے خاتمے سے بالخصوص ہندوستان میں اور بالعموم پاکستان میں نفرت اور تعصب کی فضا میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے خاتمہ سے ریاست جموں و کشمیر سے تعلق نہ رکھنے والا شخص بھی وہاں پراپرٹی خرید کر رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے وہاں مسلم اکثریت آباد ہے مگر اب وزیراعظم مودی کی سوچ والے متعصب ہندو بھی وہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں تاکہ مسلمان آبادی کو کنٹرول کیا جا سکے۔
اس آرٹیکل کے خاتمے کے خلاف جموں و کشمیر کے علاوہ انڈیا میں بھی مظاہرے شروع ہوئے مگر اس کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ مودی حکومت نے کشمیریوں پر بندشوں میں اور اضافہ کر کے فوج کی تعیناتی میں اضافہ کر دیا، جس سے ان کے بنیادی انسانی حقوق بھی سلب ہو کر رہ گئے اور بین الاقوامی برادری کے سر پر بھی جوں تک نہ رینگی۔
کچھ ناقدین جو کہ آزاد کشمیر کو پاکستانی مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں، میرا ان سے یہ کہنا ہے کہ جناب پاکستانی کشمیر کو مقبوضہ کشمیر میں تب مانوں جب آپ مجھے وہاں پر بھی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور فوج کی بربریت دکھائیں۔ اور اگر وہ یہ سب نہ دکھا سکیں تو مان لینا چاہیے کہ کون سا کشمیر آزاد اور کون سا کشمیر مقبوضہ ہے۔ اگر اخلاقی طور پر دیکھیں تو کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق بھارت کو پہلے دن سے ہی حق رائے دہی دے دینا چاہیے تھا تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اقوام متحدہ کے فیصلے بھی ان ممالک کے لیے ماننے ضروری ہوتے ہیں جو کمزور ہیں۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کو تقریباً ایک برس ہو گیا ہے مگر بالخصوص کشمیر میں اور بالعموم بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ناروا سلوک میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اقلیتوں پر ظلم اور ان کی حقوق سلبی ہر جگہ قابل مذمت ہے چاہے وہ بھارت میں ہو یا پاکستان میں ہو۔ ویسے غیرجانبدار ہو کر دیکھا جائے تو کشمیر کا مسئلہ پہلے جغرافیائی و سیاسی اور اس کے بعد مذہبی ہے۔
افسوس صرف اس بات کا ہے کہ وہ بھارت جو خود کو فخریہ طور پر سیکولر کہتا تھا اب مذہبی منافرت میں شریک ہو کر اپنا تشخص بین الاقوامی طور پر خراب کر رہا ہے۔ اس میں زیادہ قصور متعصب سوچ رکھنے والے وزیراعظم مودی کا ہے۔ جس کی تازہ مثال بابری مسجد والے واقعہ سے بھی لی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ انڈیا کے فیصلہ کے مطابق بابری مسجد والی متنازعہ جگہ پر ہندو مندر بنایا جائے اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے الگ جگہ فراہم کے جائے۔ وزیراعظم مودی نے بابری مسجد والی جگہ پر ہندو مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے 5 اگست 2020 کا دن چنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دن چن کر آرٹیکل 370 کے خاتمے والے دن پر ایک برس مکمل ہونے کا جشن منایا جا رہا ہو اور مسلمان اقلیتوں بالخصوص کشمیریوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہو کہ جاؤ اپنے خیرخواہوں کو بھی بلا لو اور جو ہو سکتا ہے کر لو۔ وزیراعظم مودی کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور بھارت کو مذہبی منافرت اور تعصب میں جھونکنے سے بچانا چاہیے ورنہ جہاں ان کو تاریخ ہمیشہ برے الفاظ میں یاد رکھے گی، وہاں بھارت کا تنزلی کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔ ان کو ان ممالک سے سبق سیکھنا چاہیے جو پہلے ہی اس آگ میں جل رہے ہیں۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔