گزشتہ روز اجلاس کے اختتام پر ہم نے خبر دی کہ کثرتِ رائے سے چیف جسٹس کے نامزد کردہ پانچوں ناموں کو مسترد کر دیا گیا ہے، کچھ ہی دیر بعد سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری ہوتا ہے جس میں انکشاف ہوتا ہے کہ معاملہ کثرتِ رائے سے موخر کر دیا گیا ہے۔
ابھی ہم صحافی اس اعلامیہ کو رپورٹ ہی کر رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک خط واٹس ایپ پر موصول ہوتا ہے جس میں معزز جج اعلامیہ سے متضاد رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 9 میں سے 5 اراکین نے چیف جسٹس کے نامزد کردہ ناموں کو مسترد کر دیا ہے۔
آج شام 5 بجے کے قریب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں چیف جسٹس کے نامزد کردہ جونئیر ججز کے نام مسترد ہونے کو خوش آئند قرار دیا جاتا ہے اور اسکے کچھ ہی دیر کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود کیجانب سے لکھا گیا ایک خط منظر عام پر آ جاتا ہے۔
جسٹس سردار طارق بھی ساتھی ممبر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "چیف جسٹس تفصیلی بحث کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گفتگو کے دوران اچانک سے اٹھتے ہیں اور فیصلہ سنائے بغیر ہی چل دیتے ہیں"دونوں معزز ججز صاحبان نے اجلاس کے منٹس جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔
جسٹس سردار طارق کے خط کے فوری بعد چیف جسٹس کی ہدایت پر سپریم کورٹ کا ایک اور اعلامیہ جاری ہوتا ہے جس کیساتھ اجلاس کی 2 گھنٹوں اور 25 منٹ پر محیط مکمل آڈیو ریکارڈنگ کا لنک بھی موجود ہوتا ہے۔ اعلامیہ میں اس وقت کا تعین کیا گیا جہاں اٹارنی جنرل معاملہ موخر کرنے کا کہتے ہیں۔
مکمل آڈیو ریکارڈنگ سننے کے بعد ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ کیجانب سے جاری کردہ پہلے اعلامیہ میں ایک سے زائد حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اعلامیہ کیمطابق "اجلاس کے اختتام پر چیف جسٹس نے پانچوں ججز کی تعیناتی کا معاملہ موخر کرنے کی تجویز پیش کی"۔
اعلامیہ کیمطابق"چیف جسٹس کی اس تجویز سے کہ معاملہ موخر کر دیا جائے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی اور اٹارنی جنرل نے اتفاق کیا "جبکہ آڈیو ریکارڈ کہانی بالکل اس کے برعکس سناتی ہے"۔
سب سے پہلے تو اعلامیہ میں لکھا گیا کہ اکثریت نے معاملہ موخر کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا جبکہ درحقیقت معزز چیف جسٹس نے اراکین کی آراء سنے بغیر ہی اجلاس سے چلے جانا مناسب سمجھا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے متعدد بار بلانے پر بھی رکنا گوارا نا کیا۔
پہلے اعلامیہ میں معاملہ موخر کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل کی رائے کا زکر تو کیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل نے نہ صرف جسٹس طارق مسعود کی رائے سے اتفاق کیا بلکہ جسٹس اطہر من الله کو سپریم کورٹ نہ لانے پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
اٹارنی جنرل معاملہ موخر کرنے کی بات ضرور کہی مگر اعلامیے میں انکی اس بات کو بھی غلط رنگ دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کیجانب سے معاملہ موخر کرنے تجویز سے کافی پہلے ججز کی تعیناتی کیلیے ضابطہ کار بنانے تک معاملہ موخر کرنے کی تجویز سامنے رکھی تھی۔
ایک بات تو طے ہے کہ چیف جسٹس کو ایک بڑی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے وگرنہ چیف جسٹس کا یوں اچانک سے کاروائی بیچ میں چھوڑ کر چلے جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بے شک چیف جسٹس کے نامزد کردہ ناموں کا منظور نا ہونا ایک غیرمعمولی بات تھی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
حیران کن طور پر سندھ ہائی کورٹ کے ایک معزز جج نعمت اللہ خان پلپوٹو کے نام پر کافی زیادہ اعتراضات اٹھ جانے کے بعد چیف جسٹس نے خود ہی معزز جج کا نام واپس تو لے لیا مگر اعلامیہ میں اس بات کا بھی دور دور تک کوئی زکر نہیں کیا گیا۔
کیا معزز چیف جسٹس جنہوں نے اٹارنی جنرل کی معاملہ موخر کرنے کی بات کو بڑی خوبصورتی کیساتھ اپنے حق میں استعمال کیا ہے آئندہ اجلاس میں جسٹس اطہر من الله کا نام تجویز کریں گے؟ کیا سینیارٹی کے اصول کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں گے؟ کیونکہ اٹارنی جنرل نے تو یہ باتیں بھی کہی تھیں۔
احمد عدیل سرفراز ایک صحافی ہیں جو آج نیوز کے ساتھ بطور سپریم کورٹ رپورٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔