کرونا کی عالمی شہرت: پہلے ویکسین نہ ہونے کا ڈر تھا اب ویکسین لگوانے کا خوف ہے

کرونا کی عالمی شہرت: پہلے ویکسین نہ ہونے کا ڈر تھا اب ویکسین لگوانے کا خوف ہے
حال ہی میں یعنی کچھ عرص قبل ایک ایسا  نام سامنے آگیا جس نے شہرت کی دنیا میں سب ناموں کو پیچھے چھوڑ دیا چاہے وہ کوئی اداکار،اداکارہ،سیاستدان اور حتیٰ کہ بڑے بڑے سائنسدانوں کا ہی نام کیوں نہ ہوجبکہ  ہم سب کی سوچ سے کچھ زیادہ نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ اور ہر حد پار کر گیا۔

یہ نام صرف کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں top trending پہ چل رہا ہے۔ دنیا کا ہر وہ انسان جو اپنی کوئی پہچان رکھتا ہو یا جس کی بات لوگ سنتے یا مانتے ہیں،اسی کے بارے میں لوگوں کو بتلا رہے ہیں۔ دنیا کے ہر ٹی وی چینل ،ہر گھر میں صرف اور صرف اسی کا تذکرہ ہے۔ ہر وہ جگہ جو عام ہو یا خاص ہو بس سب کے سب اسی کا گن گا رہیں ہیں۔ میں کس طرف اشارہ کر رہا ہوں آپ لوگوں کو پتہ چل چکا ہوگا جبکہ  یہ بھی معلوم ہوگا کہ آپ کو کس طرف مائل کرنا چاہتا ہوں ۔اس نام نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اب صرف اسی کی بات ہوتی ہے، اسی کا ہی چرچا ہے،اور اسی کا راج۔

مشہوریت کس کو پسند نہیں تو جب تک اس بلندی سے یہ خود نیچے نہیں آتا آپ اور ہم بے بس ہیں۔ اسے روکنے کے لئے ہمیں کچھ کرنا ہوگا ورنہ اس مشہوریت کو دیکھنے کے لئے ہم باقی نہیں رہے گے۔ لیکن ہم بھی تو بے بسی کا شکار ہیں ہمارے پاس بھی ایسا کوئی آلا نہیں جس کی مدد سے اس پہ قابو پا لیا جائے۔

کرونا، کرونا، کرونا، صبح شام، دن رات، کسی کو فون کرو تو وہیں۔ جہاں دیکھو وہیں ہی وہیں۔ اب جب کبھی کوئی اس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ ڈر اور خوف و ہراس کے مارے کہتے ہیں کہ اس کا اور تذکرہ نہ کریں۔

ہمارے کالم نگار، میڈیا جہاں کرونا کے بارے میں احتیاطی تدابیر بتا رہے ہیں وہیں ایک دوسرا کام یہ بھی ہو رہا ہے کہ لوگوں میں ڈر بھی بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کرونا،خوف و ہراس اور دہشت Directly proportional ہو گئے ہیں۔ مطلب اگر ہم ایک بھی چیز کو کم یا زیادہ کرتے ہیں تو دوسری چیز Automatically کم یا زیادہ ہو رہی۔ ہر کوئی اس مرض کے بارے میں علم رکھنے والا یا نہ رکھنے والا اپنے طریقے سے لوگوں کو اپنا ہی ایک نظریہ دے کر  لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ کرونا کے متعلق جتنی معلومات لوگوں تک پہنچنی چاہیے تھی پہنچ چکی۔ اب ہم سب کا یہ کام اور فرض ہے کہ لوگوں کو ایک یہ امید بھی دیں کہ" کرونا"میں مبتلا ہر شخص مرتا نہیں اور اس مرض سے مرنے سے زیادہ صحت یاب ہونے کے امکانات ممکن ہے۔ انسان چاہے تو موت کو بھی شکست اس طرح دے سکتا ہے کہ وہ ہمت،کوشش اور کوئی خوشی کی وجہ ڈھونڈ کر اور کبھی ہار نہ مانے تو وہ موت کو خود سے بہت دور کر سکتا ہے۔ اگر وہ یہ سوچے کہ اس مرض میں مبتلا تو ہو گیا ہوں اب کچھ نہیں ہوسکتا تو وہ کرونا سے پہلے اس خوف سے مر جائے گا جو اس کے پاس مرنے کا خوف کی شکل میں ہے۔

جہاں ہم احتیاطی تدابیر اور کرونا کی شدت کو لوگوں تک پہنچا رہے ہیں وہاں انہیں اس سے بچنے کے لئے اور خوف و ہراس میں مبتلا نہ ہونے کے لیے بھی کچھ تدابیر اپنانے کی ضورت ہے تاکہ اس خوف و ہراس اور دہشت کو ختم کیا جاسکے۔ کرونا نے پھیلنا تھا وہ پھیل چکا ہے اب اس وبا سے کس طرح جیت کر اس کو شکست دینی ہے یہ مسئلہ اہم ہے۔ایک لمحے کے لئے آپ خود سے ہم کلام ہو جائیں۔ جب اس وبا کی ویکسین نہیں آئی تھی تو ہم کیا کر رہے تھے اور اب جب ویکسین کی بہت اقسام بھی آئی ہے لیکن ہماری پھر بھی وہی پہلی جیسی حالت ہے۔ ویکسین کے آنے سے خوشی کے بجائے ہم اسی ویکسین سے خوف کھا رہے ہیں۔ تذکرہ یہ کرنا چاہیے  کہ مرنے سے زیادہ صحت یاب کیسے ہوں گے ۔اگر ہم یہ نظریہ لوگوں کو دے دیں کہ اگر آپ کرونا جیسی مرض میں مبتلا ہوتے بھی ہے تو اس سے صحت یاب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہے تو کرونا کی اس شدت کو لوگوں میں کم کرے تاکہ لوگ کرونا سے ہٹ کے بھی کچھ سوچیں۔ کرونا کے نام سے جڑی ہر چیز کو منفی معنوں میں لیا جاتا ہے حالانکہ جس نام کا پوری دنیا میں راج اور دہشت ہے وہ نام " کرونا" ہے۔

ہمارا اور آپ کا مقصد یہ ہے کہ کرونا سے ڈر کر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر  بیٹھنا نہیں بلکہ لڑنا ہے بس لڑنے کی وجہ ملنے کی بات ہے اُس کے بعد سب ویسا ہی ہوگا جو پہلے تھا۔ وہ لڑائی کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے۔ گھر بیٹھ کر،دوسروں کی مدد کر کے،احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے۔ لاک ڈاؤن میں حکومت کا ساتھ دے کر۔اب آپ پہ ہے آپ کیا کرتے ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں اپنا اپنا حصہ ہر کوئی ڈالے۔آئیں اور مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان اور پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔اور انسانیات کا درس خود سے شروع کریں۔

فیصلان شفاء اصفہانی گلگت بلتستان کی تاریخ کے سب سے پہلے کم عمر کالم نگار ہیں جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم ہیں