سوشل میڈیا کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں اس کراہت آمیز واردات میں ایک دوسرے شعبے کے ٹھیکیدار کو آڑے ہاتھوں لینے کی سو دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن وہ وجہیں ہرگز نہیں ہیں جن کی آڑ میں بیشتر خود کو ارطغرل کے ہم پلہ بنانے پر تلے ہیں۔ اس دلیل کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ فقط اس واقعے میں ملوث کرداروں کی صنف اور حسب و نسب کو بدل کر دیکھیں، واقعے کی نزاکت میں خود بخود کمی آ جائے گی۔
فرض کرتے ہیں فرش پر پڑے خون آلود پیروں کے نشان کسی ’عامی‘ کے بدمعاملگی کا نتیجہ ہوتے تو کیا پھر بھی یہ مناظر سوشل میڈیا پر اتنے ہی دہشت ناک نظر آتے؟ نہیں۔ کیونکہ اگر کوئی معمولی قسم کا محب کوئی بنیاد بنا کر محبوب یا محبوب کے شریک کو دبوچتا، تو اس قسم کی حرکت کو ایک عامیانہ حرکت کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا۔
دوسرا فرض کیجئے اگر ہمارے پدرشاہی نظام میں وقوع پذیر ہونے والے اس واقعے میں خاتون حملہ آور کی جگہ کوئی مرد اپنے شریک سے اس قسم کی دست اندازی کرتا پایا جاتا، کیا پھر بھی سوشل میڈیا پر حالیہ قسم کی قیامت پرپا ہو پاتی؟ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟ کچھ لوگ حملہ آور کو بیوی سنبھال نہ پانے پر مردانہ کمزوری کا طعنہ دیتے جب کہ دیگر شریک کو سنبھال نہ پا سکنے پرغیرت کو لعن طعن کر کے چلتے بنتے۔
مانیں نا مانیں جن عوامل کی وجہ سے یہ واقعہ حد سے زیادہ رنگین اور سنگین بنایا گیا وہ مرکزی کرداروں کا صنف نازک ہونے کے ساتھ ایک کا اشرافیہ اور دوسرے کا فنکار ہونا تھا۔ جس نے ہم کی بورڈ ماہرین کو ایک ایسا موضوع تھالی میں سجا کر پیش کیا جس پر نہ صرف ہم اپنی برسوں کی پنپتی محرومیوں کی بھڑاس نکال سکتے تھے بلکہ خود کو خدائی فوجدار سمجھ کر دوسروں کے شرافت کے لبادے میں بھی جھانک سکتے تھے۔
ورنہ اگر طبقاتی نظام کو چیلنج کرنا مقصود ہوتا تو پچھلے کئی سالوں ہم لوٹ کھسوٹ کے ان گرم بازاروں پر ٹریںڈ چلا رہے ہوتے، جن میں ٹھیکیدار صاحب کا براہ راست نام بھی آتا ہے۔ بلکہ شاید ہماری آںکھوں سے اوکاڑہ فارم اور کونے کھدروں سے ملنے والی لاشوں کے مقامات بھی اوجھل نہ ہوتے۔ اور اگر اب تک ایسے ٹرینڈز چل چکے ہوتے تو ان میں انتظامیہ کی بے بسی، قانون کی لاچارگی اور ادھیڑ عمر میڈیا کے منہ میں چوسنی لینے کی مجبوری کے پیچھے کے کارفرما عوامل کا بھی کچھ نہ کچھ پتہ چل چکا ہوتا۔
خیر اگر ابھی بھی بہت سے بضد ہیں کہ ان کی گریہ و زاری کی وجہ عورت پر ہونے والی یہ دست اندازی ہے، تو ان کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ آج سے دس روز قبل وزیرستان میں اس زیادہ سفاک واقعہ درپیش آیا تھا۔ ایک ویڈیو پر غیرت کھا کر چچا زاد بھائی نے 16 اور 18 سالہ لڑکیوں کو قتل کیا۔ اس واقعے پر کتنے سوشل میڈیا کے جنگجوؤں کو ہتھیار اٹھانے کی توفیق ہوئی؟ کیا وکلا کی فوج نے متاثرین کے گھر پر دستک دے کر ان کو مفت قانونی معاونت کی پیشکشیں کیں؟ یہاں پر تو خبر نشر کرتے وقت ’بااثر‘ یا ’اہم شخصیت‘ کی لیپا پوتی کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی تو کیا وجہ ہے کہ میڈیا کی چنگھاڑ میں وہ طاقت نظر نہیں آئی؟
بات سادی سی ہے کہ چونکہ وہاں کے علاقائی رسم و رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی رنگینیت و سنگینیت میں وہ شدت نہیں تھی جو ہمارے ضمیر ملامت کرتے ہوئے ہمیں کی بورڈز پر انگلیاں تھرکانے پر مجبور کرتے۔
ٹھیکیدار کی بیٹی کے اس کیس میں یہ حوصلہ شکنی کرنا ہر گز مقصود نہیں کہ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے۔ آواز ضرور اٹھائیں لیکن تھوڑے معاملہ فہم بن کر۔ اس معاملے میں کوئی کنارہ کیسے چنا جا سکتا ہے جہاں ایک فریق اپنی حرکات کے دفاع میں گیارہ سال کا بچہ اور دوسرا اعتکاف کو لے کر کھڑا ہوا ہو؟ 1 لاکھ 80 ہزار کے کرائے میں بسنے والوں کو لاچار تصور کیا جا رہا ہو جب کہ مرد گارڈز کے ذریعے دھونس جمانے والوں کو اخلاقی برتری حاصل ہو رہی ہے۔ مان لیں کہ ایسی گتھیاں سوشل میڈیا پر نہیں سلجھائی جا سکتیں جس کے اندر پردہ در پردہ حقیقت مخفی ہے۔ یہ حق قانونی نظام کے پاس ہے کہ وہ کھوج لگائیں، ہم تو اس کھوج کے دوران نظر آںے والے سقموں کی نشاندہی ہی کر سکتے ہیں۔
خیر اس واقعے میں دھاوا بولنے والوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں، زد نشانہ عورت ذات بنا کر جو دو متحارب گروپ ایک دوسرے پر مسلسل گولہ بارود برسا رہے تھے وہ بھی تھک ہار کر لوٹ چکے ہیں۔ متوقع خوشخبری یہ ہے کہ انشااللہ یہ سب ’غازی‘ بن کر لوٹیں گے۔ معاملہ اس خوش اسلوبی سے نمٹے گا کہ ایک فریق یہ بھول جائے گا اس کے قانونی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے جب کہ دوسرا فریق اخلاقی آڑ کی جانے والے اس داخل اندازی کے دفاع سے تائب ہو جائے گا۔ جس کے بعد ’مرد گردی‘ کی شکار ہونے والی دونوں خواتین کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں عثمان بزدار سی معصومیت رکھنے والا عثمان کے طرز عمل پر بھی غور کر کے کوئی منطقی نتیجہ اخذ کریں۔
آخر میں ان لوگوں سے جو کہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہر معاملے میں مداخلت کرنے والے ملک کے ٹھیکدار نے اس نجی معاملے میں مداخلت نہیں کی تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ادارے کی ساری توجہ ابھی ٹڈی دل کے خلاف دفاعی حکمت عملی مرتب کرنے میں مرکوز ہے، ان کے فراغت کا انتظار کریں۔