جیسے جیسے 9 مئی کو لگنے والی آگ کے شعلے ٹھنڈے ہو رہے ہیں، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں کی طرف سے کیے جانے والے پرتشدد مظاہرے ایک سال سے ہماری آنکھوں کے سامنے جاری اقتدار کی کشمکش کا محض ایک پہلو ہیں۔ ہنگامہ آرائی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں کچھ لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کہ فوج میں بغاوت ہو گی اور جنرل عاصم منیر فارغ ہو جائیں گے۔ تمام تر تردیدوں کے باوجود عمران خان نے یقینی طور پر اسی نتیجے کی آس پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا چھوڑا تھا۔ لیکن یہ کوشش بری طرح ناکام ہو گئی اور اب عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود ان کے کچھ پوشیدہ حامی شکست کھا چکے ہیں۔ ان تمام کو نا بھی سہی، بیش تر کو اب اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔
پی ٹی آئی کے کارکنان اور اس کی دوسرے درجے کی قیادت کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد بطور کنگز پارٹی پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا عمل ڈرامائی تیزی کے ساتھ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستانی معیار کے حساب سے بھی پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی رفتار حیران کن ہے، عمران خان خود بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگ جائے گی۔ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس نوعیت کے سرجیکل آپریشنز کرنے کے لئے اچھی طرح تربیت یافتہ ہے جیسا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں سات دہائیوں کے سخت تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے اس صلاحیت کی تصدیق کی تھی۔ یہ سچ ہے کہ پارٹی کو مشکل وقت میں چھوڑنے والے رہنما روایتی بھگوڑے اور موقع پرست ہیں جنہوں نے مستقبل کے منظرنامے کو پہلے سے محسوس کر لیا ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات، طویل قید کا خوف اور انتخابی میدان سے نااہلی ان نظریاتی طور پر کمزور خواتین و حضرات کے لئے کافی ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے عمران خان کے الفاظ میں اپنی 'جبری طلاق' کا اعلان کر دیں۔ ظاہر ہے، عمران خان اور ان کے ہمدردوں کو پاکستان کی تاریخ خاص طور پر اس کی مضبوط فوج کے حوالے سے ایک اور 'سیاہ دن' کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فوج اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں پر بھی غور کر رہی ہے اور ادارے کے اندر موجود عمران خان کے ہمدردوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ عمران خان کے نظریے سے جڑے سابق فوجیوں کے زہریلے بیانات آنا بند ہو گئے ہیں۔ آرمی چیف نے کور کمانڈر لاہور کو برطرف کر دیا ہے، ایک سابق آرمی چیف کی نواسی کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور اطلاعات ہیں کہ فوج کے اندر بھی صفائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ 25 مئی کو شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقدہ تقریب میں سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک خصوصی مہمان جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے جنہیں عمران خان غدار قرار دیتے آئے ہیں۔ تمام سیاسی قوتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے لئے یہ واضح پیغام تھا کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی سربراہان کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
'بغاوت' کے جواب کا تیسرا پہلو پی ٹی آئی کی ممکنہ طور پر ناقابل تسخیر پروپیگنڈا فیکٹری پر گرفت کرنا ہے جسے بیرون ملک سے آنے والے عطیات، صوبائی حکومتوں کے ٹیکس دہندگان کی رقم اور کچھ نجی میڈیا آؤٹ لیٹس کی مدد سے کھڑا کیا گیا تھا۔ عمران ریاض خان جیسے یوٹیوبرز 'لاپتہ' ہیں، دوسروں کو 'اٹھایا' گیا اور پھر نیک چال چلن کی ضمانت لینے کے بعد چھوڑ دیا گیا اور 'سافٹ ویئرز کو اپ ڈیٹ کرنے' کے لئے آپریشن جاری ہے۔ جزوی طور پر یہ کریک ڈاؤن پی ٹی آئی کے غلط معلومات پھیلانے والے نظام کی کارروائیوں کی وجہ سے ہی شروع کیا گیا جو انتشار اور فوج کی صفوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس تیسرے پہلو کا ایک اور واضح جزو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مشینری کے خلاف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اپنے psy-ops اور جوابی پراپیگنڈا ہیں، پی ٹی آئی کی مقبولیت کو چیلنج کرنے کے لئے اپنے سابق سیاسی 'تزویراتی اثاثوں' کو دوبارہ فعال کرنا جس کا محض ایک حصہ ہے۔ شہیدوں کے پوسٹرز اور جرنیلوں کی مدح سرائی پر مبنی بل بورڈز، فوجیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے گانے اور ناچنے کی ویڈیوز جاری ہونا اور پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے مہنگی کاروں کی ریلیاں منعقد کرنا؛ یہ سب فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے لوگوں کے 'دل جیتنے' کے آزمودہ طریقے ہیں۔ سیاسی، معاشی اور سلامتی کے بحرانوں میں گھرے ملک میں قومی شناخت اور بہادری کی نمائش اس فضول کوشش پر پی ٹی آئی کے حامیوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں نے بھی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بغاوت کو ناکام بنانے کا حتمی اقدام عمران خان کی ممکنہ دوبارہ گرفتاری اور ان پر مقدمہ چلانا ہوگا جس کا 'عظیم خان' کو بھی اچھی طرح علم ہے۔ جہاں پہلے عمران کے ساتھ عوام کی حمایت تھی، جذباتی کارکنان تھے جو اپنے مسیحا کے دفاع کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے، اب لگتا ہے کہ ان کے حوصلے بھی پست ہو رہے ہیں۔ زمان پارک میں 'کلین اپ' آپریشن اور پولیس کی جانب سے اب آزادانہ طور پر ایک ایسے علاقے میں گشت کرنا جسے کبھی عمران خان کا ناقابل تسخیر قلعہ کہا جاتا تھا، واضح پیغام ہے کہ عمران خان سرکاری تحویل میں نہ سہی لیکن 'قابو' میں بہر حال آ گئے ہیں۔ اور اگرچہ عمران خان کے سوشل میڈیا کے مداحوں کی فوج آپ کو کوئی اور منظر بنا کر پیش کر رہی ہے لیکن سابق وزیر اعظم کے پاس آپشنز اب ختم ہو چکے ہیں؛ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے 'انتقام' میں فوج کے خلاف مشتعل ہونے والے ان ہزاروں لوگوں کی تقدیر کا متوقع فیصلہ نچلی سطح کے حامیوں اور سوشل میڈیا جنگجوؤں دونوں کو اپنی ترجیحات پر نظر ثانی پر مجبور کر رہا ہے، کہ کہیں اقتدار کی جاری کشمکش میں وہ بھی پابندِ سلاسل نہ ہو جائیں کیونکہ کسی بھی فریق کے لئے ان لوگوں کے مفادات معنی نہیں رکھتے۔
11 مئی کو عمران خان ناقابل شکست نظر آتے تھے۔ وہ آرمی چیف کو للکار چکے تھے، ان کی جماعت نے فوجی طاقت کی علامتوں کو نذر آتش کر دیا تھا اور سپریم کورٹ کے چند جج عمران خان کے کارنر میں استقامت سے کھڑے دکھائی دیتے تھے۔ لیکن چند ہی دنوں میں فوج نے پوری ریاستی طاقت سے جوابی وار کیا جسے اب ایک پوسٹ ماڈرن بغاوت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم نظر آتی حکومت کی حمایت بھی حاصل تھی جو اپنے مشترکہ دشمن کے تعاقب میں فوج کی پشت پر کھڑی تھی۔
کیا یہ عمران خان کی اب تک کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ہے؟ ابھی تک تو ایسا ہی لگتا ہے۔ اس بھونڈے انداز میں اور پارلیمانی اتفاق رائے کے دائرے سے باہر فوج پر حملہ کر کے عمران خان نے ناصرف اقتدار میں واپسی کے اپنے امکانات کو ختم کر دیا ہے بلکہ اب کم از کم کچھ عرصے تک بطور سیاست دان بھی اپنا کردار محدود کر لیا ہے۔ اگر وہ کسی معجزے کی صورت میں فوج کے غضب سے بچ بھی جاتے ہیں تو ان کی پارٹی کا زیادہ تر ڈھانچہ بالخصوص 'الیکٹ ایبلز' ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے۔ عمران خان کے لئے اچھی سے اچی صورت بھی یہ ہوگی کہ ان کی پارٹی باجوہ-فیض دور سے پہلے والی پوزیشن پر آ جائے جہاں یہ ڈیپ سٹیٹ کی حمایت کے بغیر ایک کمزور سی آواز کی صورت میں موجود تھی۔ یہ بھی ایک خوش فہمی پر مبنی منظرنامہ ہے کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیاست دانوں کو ہمیشہ سبق سکھایا جاتا ہے۔
اس سارے منظرنامے میں حکمران اتحاد کہاں کھڑا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ چپکے چپکے پروجیکٹ عمران کے خاتمے کی خوشی منا رہا ہو لیکن حقیقتاً وہ بے بس اور سیاسی فیصلے لینے کی اہلیت سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان کی ہٹ دھرمی نے کسی سیاسی سمجھوتے پر پہنچنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ حکمران اتحاد عمران خان بمقابلہ فوجی اسٹیبلشمنٹ والے معرکے سے خاصا خوش ہے۔ لیکن یہ جماعتیں بھول رہی ہیں کہ اپنی جگہ فوج کو دے کر اور سخت کریک ڈاؤن کی حمایت کر کے وہ مزید آمرانہ ماحول کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ ایک بار جب عمران خان کا 'علاج' ہو جائے گا تو اس کے بعد دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ہوگا۔ جلد یا بدیر فوج تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک سا سلوک کرتی نظر آنے پر مجبور ہو گی۔
عمران خان کو شاید اب بھی چیف جسٹس بندیال کی جانب سے مزید ریلیف ملنے کی امید ہو لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ججز بھی پھنس چکے ہیں۔ چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے اندر اختلافات کا سامنا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ آیا ان کے ساتھی ججز عمران خان کو ریلیف دینے کی چیف جسٹس کی مزید کوششوں کی حمایت کریں گے یا ایسی کوئی کوشش خود بنچوں کے اندر مزید اختلافات پیدا کر دے گی۔ چیف جسٹس بندیال کے لئے بہتر ہو گا کہ اپنے اختیارات اور آئینی ذمہ داریوں کا از سر نو جائزہ لیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ سابق وزیر اعظم کی جانب سے ریاستی ادارے کے اندر تقسیم کے بیج بونے کی کوششوں کے نتیجے میں خود ان کے خلاف ہی بغاوت ہو گئی۔
درحقیقت بہت سے لوگوں کا استدلال ہے کہ یہ چیف جسٹس بندیال کی زیر قیادت سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کے حق میں 'جھکاؤ' ہی ہے جس نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو 9 مئی کے فسادات کے منصوبہ سازوں، اور ان کے حواریوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لئے 'فوجی عدالتوں' کے قیام پر مجبور کر دیا۔ لیکن یہ پاکستان کے جمہوریت پسندوں، میڈیا اور انسانی حقوق کے محافظوں کے لئے اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ بتدریج قائم ہوتی آمریت ملک میں بڑی جدوجہد سے حاصل کی گئی آزادیوں کو ختم کر رہی ہے جو پہلے ہی کئی برسوں سے بدستور دبائی جاتی رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی لڑائیاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے نہیں کر سکتیں اور نہ ہی انہیں غیر آئینی پیش قدمیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے کیونکہ ممکن ہے کہ حالیہ بحران ختم ہونے سے پہلے ہی وہ خود بھی کسی کی بندوق کی شست پر آ چکے ہوں۔
رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔