یکساں نصابِ تعلیم اوّل دن سے ہی غیرواضح، متنازعہ بلکہ خود متضاد منصوبہ اور نقظہء نظر رہا ھے ۔ یہ بات ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ٓادراق) کے سربراہ اور ممتاز ماہرِتعلیم امجد نذیر نے ملتان میں اپنی تحقیقی کتاب "یکساں نصابِ تعلیم: تنقیدی جائزہ اور پالیسی سفارشات" کی رونمائی کرتے ھوئے کہی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں جب مُلک میں تقریبا" تین لاکھ سکولوں کی فوری ضرورت ہے، کم و بیش ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ـ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے سینکڑوں سکولوں میں متقاضی کلاس رُومز، باتھ رومز اور چار دیواریاں نہیں ہیں ـ لائبریریوں، لیبارٹریز اور کمپیوٹر لیبز کا سِرے سے فقدان ہے اور سکولُوں میں اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں ـ یکساں نصابِ تعلیم گھوڑا پیچھے اور ٹانگہ آگے باندھنے کے مترادف ہے ـ اگر حکومتِ پاکستان واقعی نظام اور معیارِ تعلیم کو بہتر کرنے میں رتی برابر بھی دلچسپی رکھتی ھے تو اُسکو سب سے پہلے تعلیم کا بجٹ بین لاقوامی معیار کے مطابق کم از کم 6 فیصد کرنا چاہیے۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے امجد نذیر نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے پس منظرمیں سندھ نے یکساں نصابِ تعلیم کا اطلاق کرنے سے انکار کر دیا ہے ـ جبکہ بلوچستان نے اِس پر پہلے دن سے ہی با معنی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ـ صرف خیبر پختونخواہ اور پنجاب، تحریکِ انصاف کی حکومت ہونے کیوجہ سے پیش پیش ہیں ـ متعلقہ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈز کو کتابوں کی ترتیب و ترمیم اور اشاعت و تقسیم کے حوالے سے طرح طرح کے مسائل درپیش ہیں ـ پہلے فیز میں جماعت اوّل سے پنجم تک جو ماڈل ٹیکسٹ بُکس سامنے لائی گئی ہیں اُن میں مواد، معیار، مضامین، موضوعات، کہانیوں، مشقوں، صنفی تصویر کاری، غیر مسلموں کی نمائندگی اور سب سے بڑھ کر حصولِ اکتساب بارے ماہرین نے کئی اعتراضات اُٹھائے ہیں ۔ علاوہ ازیں، اعلان کے مطابق پہلے تو 2023 تک گیارہویں، بارہویں تک نئے نصاب کا چھپ کر تقسیم ہو جانا مشکل نظر آتا ہے اور اگر ہو بھی گیا تو 2023 میں الیکشن کے بعد نئی حکومت اسکو اپنانے کیلئے تیار نہیں ھوگی۔
پرائیویٹ اداروں کو این او سی، ریویّواور اجازت کیلئے درکار فیس، اور بیوکریٹک تاخیر جیسی کئی رکاوٹیں درپیش ہیں ـ اور ساتھ ہی ساتھ کم از کم پنجاب میں 'متحدہ علماء بورڈ' سے اسلامیات اور دوسرے مضامین میں اسلامی موضوعات کی جانچ پڑتال کا عمل مزید تاخیر کا باعث بنتے ہیں ـ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چند پرائیویٹ اداروں کو یکساں نصابِ تعلیم نہ اختیار کرنے پر لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکیاں دینے کے بعد اب نئی موشگافی سُننے کو مل رہی ھے کہ جو نجی ادارے یکساں نصابِ تعلیم اختیار کریں گے اُنکو 'کور پلس' کا ٹائیٹل دیا جائے گا جسے محض علامتی نام دے کر پسپائی اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ـ
مدرسوں کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ھوئے مصنف نے مزید کہا کہ یکساں نصابِ تعلیم مدرسوں کے نظام سے سرے سے مطابقت ہی نہیں رکھتا ـ کیونکہ 25 سے 30 ہزار مدارس میں بمشکل 10 فیصد ایسے ھونگے جو سرکاری نظام موافق رسمی پرائمری اور ثانوی تعلیم دے رہے ھونگے ـ باقی تمام مدارس فقط قاعدہ، تجوید، ناظرہ، حفظ اور احادیث کی تعلیم فراہم کرکے اِسے درسِ نظامی کا نام دیتے ہیں ـ اِن میں سے ذیادہ تر نہ ہی نئے نظام تعلیم سے متفق ہیں اور نہ ہی نظریاتی طور پر قائل ہیں کیونکہ انکے خیال میں اُنکا مقصد عالم دین پیدا کرنا ہے نہ کہ ݙاکٹر، انجیینئراو سائنسدان بنانا ۔ قصہ مختصر یہ کہ وسائل سے محروم صرف غریب سرکاری سکول ہی ہیں جو یکساں نظام تعلیم کی بے یقینی سے پریشانی اُٹھاتے رہیں گےـ
سِمال سکیل پرائمری ریسرچ، جس میں سندھ اور پنجاب سے 32 پبلک، 28 پرا ئیویٹ اور 18 مدرسوں سے حاصل کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق امجد نزیر نے کہا کہ صرف 52 فیصد سرکاری سکولوں، 27 فیصد پرائیویٹ سکولوں جبکہ صرف 20 فیصد مدرسوں کے اساتذہ یکساں نصابِ تعلیم سے واقف تھے ـ متعلقہ تربیت کے حوالے سے68 فیصد سرکاری سکولوں، 19 فیصد پرائیویٹ اور صرف 13 فیصد مدرسوں کے اساتذہ نے اب تک آن لائن یا براہ راست تربیت حاصل کی ہے ـ اسی طرح بوقتِ تحقیق تقریبا" 68 فیصد سرکاری سکولوں کو کتابیں فراہم کی جا چکی تھیں، 21 فیصد پرائویٹ سکولوں نے نئے نصاب کے مطابق کتابیں خرید لی تھیں ـ اور صرف 5 فیصد (رسمی تعلیم دینے والے) مدرسوں نے کسی طرح کتابوں کا حصول ممکن بنا لیا تھا ـ ایسے تمام ادارے جن کو سرکار کیطرف سے کتابیں فراہم نہیں کی گئی تھیں کتابوں کے حصول کے لئے سرگرداں تھے کیونکہ مارکیٹ میں یہ کتابیں میسر ہی نہ تھیں ـ
صنفی مساوات کے حوالے تقریبا" 80 فیصد سرکاری سکولوں کے اساتزہ کا خیال ہے کہ نئے نصاب نے صنفی مساوات کو مدِ نظر رکھا، 58 فیصد نجی سکولوں کے اساتذہ بھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں جبکہ 15 فیصد مدرسہ کے اساتذہ، جنہوں نے جواب دیا اس سوال کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہیں ـ
تقریبا" 85 فیصد سرکاری اساتذہ نے بتایا کہ اُنکے سکولوں میں کوئی غیر مسلم طالبِ علم زیر تعلیم نہیں ہے ـ باقی ماندہ 15 فیصد میں سے لگ بھگ آدھے لوگوں نے کہا، 'ہاں چند ایک' اور باقیوں نے کہا معلوم نہیں ۔ جبکہ اقلیتی نمائندگی کے حوالے سے تقریبا" 91 فیصد سرکاری اساتزہ کے خیال میں نئے نصاب میں اقلیتی حقوق کا مساوی احترام کیا گیا ہے ـ 9 فیصد نجی اساتذہ نے اِس بیان سے اتفاق کیا جبکہ مدرسوں میں ایسا ممکن ہی نہیں تھا ـ یکساں نصابِ تعلیم کی طبقاتی نظام تعلیم ختم کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے تقریبا" 60 فیصد سرکاری اساتزہ کے خیال میں ایسا ممکن ہے، ایک تہائی نجی سکولوں کے اساتزی بھی اس خیال سے اتفاق کرتے نظر آئے جبکہ صرف 9 فیصد مدرسوں کے نماٰئندے اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آئے ـ تاہم نئے نصاب کی طبقاتی تفریق ختم کرنے کے امکان بارے 58 فیصد سرکاری سکولوں کے اساتزہ، 25 فیصد نجی سکولوں کے اساتذہ اور 17 فیصد مدرسہ نماٰئندوں کے خیال میں ایسا ممکن تھا ـ مختصرا" ادراق نے یہ تتیجہ اخذ کیا کہ سرکاری سکولوں کے اساتزہ کو کم و بیش یکساں نصابِ تعلیم کے حوالے سے نام کے علاوہ کچھ معلوم ہی نہیں ہے ـ اور یہی صورتِ حال کم فیس والے نجی سکولوں کی بھی ہے ـ اسکے بالعکس مدرسوں کے نمائندے ذیاہ تر اپنے ہی نطام ، اپنے اور اپنے فارغ التحصیل طلباء کے مسقبل اور روزگار پر زور دیتے ہیں اور یکسانیت پر یقین ہی نہں رکھتے ـ
پاکستان تنظیم برائے اقلیتی اساتذہ کے صدر، انجم جیمز پال نے کہا کہ جہاں یہ امر خوش آئیند اور قابلِ تعریف ہے کہ حکومتِ پاکستان نے پہلی دفعہ اقلیتوں کو "اخلاقیات" کی بجائے اُنکے اپنے عقائد کے مضامین پڑھنے کا حق دیا ھے وہیں مسلم کمیونٹی کیلئے بالخصوص اور غیر مسلم کمیونٹی کے لئے بالعموم کافی سارے مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں ـ اِس میں اھم ترین بات سماجی علوم کے لازمی مضامین میں بہت سا اسلامی مواد شامل کرنا ھے ۔ دوسرے لفظوں میں غیر مسلم شہریوں کو براہ راست نہ سہی بالراست یہ تمام مضامین پڑھنے ہی ہیں اور اگر وہ امتحان دے کر سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں تو انکو تمام اسلامی مضامین موثر طریقے سے پڑھنے اور سمجھنے ہیں ـ
ایک اورمثال دیتے ھوئے انہوں نے کہا کہ مسلم طلبا کو پہے ہی حفظ کے 20 نمبر اضافی دیے جا رہے تھے اور اب لازمی قران مجید کی تعلیم کیسا تھ انکے پاس 50 نمبروں کا اور بھی مارجن ھو گا جسکی وجہ سے غیر بچے نمبروں اور میرٹ میں اور بھی پیچھے رہ جائیں گے ـ اور یہ نہ صرف اُنکے لئے مشکل کا باعث ھو گا بلکہ یہ آئین کے آرٹیکل 22 کی بھی خلاف ورزی ہے جو کہ غیر مسلموں کو براہ راست او بالراست انکے اپنے عقیدے کے علاوہ کسی بھی عقیدے کی تعلیم دینے سے منع کرتا ہے ـ انجم جیمز پال نے مزید کہا کہ پاکستان کا نظام دراصلی سسٹمیٹک اور سٹرکچرل لحاظ سے ہی امتیازی اور تفریقی ہے ۔ تعلیم اسکی محض ایک مثال ہے ـ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ لازمی سماجی مضامین سے اسلامی عناصر نکال کر انکو صرف اِسلامیات تک محدود کر دینا چاہیے تاکہ غیر مسلم طلبا کو مشکل نہ ہو اور مسلم طلباء بھی اسکی جگہ متبادل مضامین کا موثر مُطالعہ کر سکیں ـ
ڈاکٹر امجد بخاری نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی نصاب اچھے یا بُرے پہلوؤں سے جانچا جا سکتا ہے ـ اصل بات ہہ کہ ان مضامین کو کیسے پڑھایا جاتا ھے ـ اگر اساتزہ اچھے طریقے سے پڑھائیں تو کوئی بھی نصاب موثر ثابربت ھو سکتا ہے ـ