سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ رکن قومی اسمبلی، اکرم چیمہ اور وفاقی وزیر فواد چوہدری نے یکطرفہ پریس کانفرنسز کرکے کہانیاں گھڑی ہیں،اس لئے یہ جواب دینے پر مجبور ہوگیا ہوں تاکہ سچائی آشکارا کر سکوں، بصورت دیگر میری خاموشی سے ان کی جھوٹی کہانیوں کو تقویت ملے گی۔
روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جاری کیے گئے دو صفحات پر مشتمل بیان میں کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ بعض حلقوں کے نزدیک مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنانا سچ کا متبادل ہے ،برا بھلا کہنے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں نے ایک فیصلہ لکھا جو بعض حلقوں کو گراں گزرا۔
انہوں نے لکھ کردیا کہ مجھے جج کے طور پر کام نہ کرنے دیا جائے اور پھر فوراً ہی مجھے عہدے سے ہٹانے کے لئے ایک صدارتی ریفرنس دائر کردیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں میری جانب سے جمع کروائی گئی تمام دستاویزات کو میڈیا میں دبا دیا گیا جبکہ میرے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کیا گیا،ان صاحب کے لیے زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ درج ذیل سولات کے جواب دیتے ،یہ گاڑی کس کی ملکیت ہے ؟ گاڑی کی رجسٹریشن بک کہاں ہے؟ میڈیا رپورٹ کے مطابق گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹس کیوں لگائی گئی تھیں؟ گاڑی پر بڑا انٹینا کیوں لگایا گیا تھا؟،گاڑی کون چلارہا تھا اور کیا اس کے پاس لائسنس تھا ؟ گاڑی کہاں ہے ؟ وفاقی وزیر جس نے قانون کی بالادستی کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور جسے علم ہی نہیں تھا کہ ہوا کیا تھا ؟ کیوں آگے بڑھ کر جعلی نمبر پلیٹوں والی مشکوک گاڑی کے مالک /ڈرائیور کو بھرپور مدد فراہم کی ؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وفاقی وزراء ''قانون کے مطابق عمل کرنے '' کا حلف اٹھاتے ہیں،تو پھر کیوں فواد چوہدری نے موٹر وہیکلز آرڈیننس کی پابندی پر اصرار کرنے کی بجائے اس حلف کی خلاف ورزی کی ہے ؟ جسٹس قاضی فائر عیسٰی نے کہا کہ میرے اور میرے خاندان کے خلاف آزمائے گئے ہتھکنڈے ،مجھے جان سے مار دینے کی دھمکی اور خاندان اور مجھے دی جانے والی گالیاں مجھے پیدل جانے سے یا قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندھی سے نہیں روک سکتیں، ہر شہری اور ٹیکس دھندہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جمعرات کے روز دو افراد جنہیں میں کبھی نہیں ملا ،نہ ہی انہیں جانتا تھا،ایک گاڑی میں سوارتھے جو قومی اسمبلی کے سامنے شاہراہ دستور پر کھڑی تھی۔ روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ گاڑی پر ایک بڑا انٹینا لگا ہوا تھا جو اس قسم کا تھا جس کی اجازت میرے خیال میں صرف مسلح افواج کی گاڑیوں کو ہوتی ہے ،قومی اسمبلی کے سامنے متعدد پولیس اہلکار بھی موجود تھے ، لیکن ان میں سے کسی نے بھی گاڑی کے ڈرائیور کو گاڑی کو وہاں سے ہٹانے کا نہیں کہا ؟ انہوں نے کہا کہ شاہراہ دستور پر اسمبلی کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ہے نہ ہی انہوں نے گاڑی کی رجسٹریشن یا ڈرائیور کے لائسنس کی تصدیق کی ،میں نے گاڑی میں موجود لوگوں سے اپنی شناخت کروانے کا کہا تو انہوں نے جواب میں مجھ سے توہین آمیز انداز میں پوچھا کہ میں کون ہوں ؟ میں نے انہیں کہاکہ میں ایک شہری اور ٹیکس دہندہ ہوں ،اور یہ نہیں بتایا کہ میں ایک جج ہوں،میں کالی ٹائی یا کالے کوٹ میں نہیں تھا بلکہ نیلی جیکٹ پہنے ہوئے تھا ،مجھے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ اور انکی گاڑی کسی مجرمانہ کارروائی میں ملوث نہ ہو،کیونکہ گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹس تھیں ،جن سے گاڑی کی ملکیت چھپائی گئی تھی۔
اس لئے میں نے اپنے موبائل فو ن سے گاڑی اور اس میں بیٹھے لوگوں کی تصویر لی ،میں سپریم کورٹ کی جانب چل پڑا جہاں مجھے عدالت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے بروقت پہنچنا تھا ،اور جعلی نمبر پلیٹوں والی مشکوک گاڑی قومی اسمبلی میں داخل ہوئی ،پھروہاں سے نکلی اور اس میں سے ایک شخص اترا اور گندی گالیاں دیتا ہوا میری طرف بڑھا ،میں نے اسے نظر انداز کیا ،خاموش رہا اور سپریم کورٹ کی جانب چلتا رہا ،اس کی تصدیق سی سی ٹی وی کیمروں سے کی جاسکتی ہے ، یہ کہ عین اسی لمحے وہ کام کرنا ہی چھوڑ گئے ہوں یا ان میں ریکارڈنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا ایڈیٹنگ کی گئی ہو۔