نسل کشی میں اسرائیل کا ساتھ دینے والا مغرب قبائلی نظام کو لوٹ رہا ہے؟

بڑے ممالک جنہوں نے کبھی قبائلی نظام کے خاتمے کی بنیاد ڈالی تھی، ایک مرتبہ پھر قبائل پرستی پر آمادہ ہو چکے ہیں اور تہذیبی ریاستوں کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ یورپ جو جدیدیت کا گہوارہ اور ہیومنزم کی جائے پیدائش ہے، اپنے ہی اصولوں کو بھول کر 'یورپی لائف سٹائل' کے دفاع پر کمربستہ ہو چکا ہے۔

نسل کشی میں اسرائیل کا ساتھ دینے والا مغرب قبائلی نظام کو لوٹ رہا ہے؟

حملے سے پہلے یروشلم پوسٹ نے اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لیبرمین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا؛ 'غزہ میں کوئی بھی معصوم نہیں رہتا'۔ اس پوسٹ کے کمنٹس سیکشن میں زیادہ تر لوگ لیبرمین کی حمایت کرتے نظر آئے۔ اہل مغرب بڑی حد تک ان کے بیان سے متفق دکھائی دیے۔

ایک تصویر دیکھیں: امریکی صدر جوبائیڈن تل ابیب ایئرپورٹ پہنچنے پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے گلے مل رہے ہیں۔ پس منظر میں غزہ میں بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے پنجر، گھروں سے بھاگتے ایک ملین خوفزدہ فلسطینی اور الاہلی ہسپتال کا ملبہ نظر آ رہا ہے۔ لیکن 500 خون آلود اور ٹوٹی پھوٹی لاشیں اٹھائے جانے سے بھی پہلے جوبائیڈن نے اسرائیل کو بے قصور قرار دیتے ہوئے تصدیق کر دی کہ اسپتال پر حملہ اسرائیل نے نہیں بلکہ حماس نے کیا ہے۔

تاہم نیویارک ٹائمز کے 24 اکتوبر کے تجزیے نے اسرائیل کے اس سرکاری دعوے کو مشکوک قرار دیا ہے جس کے مطابق اسپتال پر گرنے والا میزائل حماس کی جانب سے فائر کیا گیا تھا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے نشاندہی کی کہ اس اسپتال پر بمباری سے پہلے اسرائیل غزہ کے 35 میں سے 4 اسپتالوں کو نشانہ بنا چکا ہے جن میں اسپتالوں کو بھاری نقصان پہنچا۔

کئی دہائیوں سے اسرائیل نے امریکی کتے کی دم کا کردار ادا کیا ہے۔ نیتن یاہو کو اکثر شیخی مارتے دیکھا گیا ہے کہ وہ جو بھی کرتے رہیں انہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ امریکی قیادت ان کی جیب میں ہے۔ نیتن یاہو درست کہتے ہیں۔ ماضی میں ایک مرتبہ جب اسرائیلی کابینہ کے وزیر رافیل ایتان نے اسرائیلی قبضے میں رہنے والے فلسطینیوں کو حقارت آمیز انداز  میں 'بوتل میں بند نشہ آور کاکروچ' کہا تھا تو واشنگٹن کے کیپٹل ہل میں کسی نے بھی اس بیان پر احتجاج نہیں کیا تھا۔

ٹھہریے! ایسا نہ ہو کہ ہم نفرت کی کھائی میں اتر جائیں، آئیے یہ سمجھ لیں کہ انسانیت کے خلاف جرائم میں محض اسرائیل اور امریکہ ہی ملوث نہیں ہیں۔ اس ضمن میں قصور واروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سبھی ایک بڑے سائز کی عمارت میں بھی ایک ساتھ نہیں سما پائیں گے۔ بلاشبہ ہمیں الزام تراشی سے کام نہیں لینا چاہئیے ورنہ ہر جرم کو اس بنیاد پر چھوٹ مل جائے گی کہ وہ کسی دوسرے جرم کی وجہ سے سرزد ہوا ہے۔

تاہم کسی مخصوص طرز کے جرم پر ساری توجہ گاڑ دینا اور باقی سب جرائم کو نظرانداز کر دینا بھی کھلی آنکھوں کا دھوکہ کہلائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے انسانی جبلت کا بنیادی رجحان بے نقاب نہیں ہو پائے گا۔

مثال کے طور پر سعودی عرب کی قیادت میں کمزور اور غریب یمنی باشندوں کے خلاف جنگ اور غزہ کی طرز پر کی جانے والی ناکہ بندی پر غور کریں جس کے نتیجے میں 85 ہزار کے لگ بھگ بچے بھوک سے مر گئے۔ ایک اور مثال مزید قریب کی ہے جب پاکستانی افواج نے مشرقی پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیا تھا۔ اس میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور کئی ملین لوگوں کو بھاگ کر بھارت میں پناہ لینی پڑی۔ بھارتی گجرات میں نریندر مودی کی حکومت لاپرواہی سے دیکھتی رہی جب 2000 کے قریب بے گناہ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔

جنگ اور قتل و غارت کی یہ سب کڑیاں غزہ میں جاری قتل عام سے کم خوفناک نہیں ہیں۔ مغرب نے ہمیں اس نکتے پر قائل ہونے کے لیے مجبور کیا کہ تمام انسانی تنازعات قبائلی نظام کے بطن سے پھوٹتے ہیں جس کے تحت لوگ اپنے آپ کو ایک مخصوص گروپ کی شناخت سے جوڑتے ہیں اور خود کو دوسروں سے مختلف گردانتے ہیں۔ اس سوچ کے تحت لوگ اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والے شخص کی موت پر تو ماتم کرتے ہیں مگر دوسرے قبیلے کے شخص کو بے رحمی سے قتل کر دیتے ہیں، جیسا کہ حماس کرتا ہے۔ لیکن حماس کمزور ہے اور صرف چند ہی لوگوں کو مار سکتا ہے جبکہ اسرائیل زور آور ہے اور اپنی بے پناہ طاقت کے تناسب سے انتقام لے رہا ہے۔

انسانی ارتقا کی تاریخ کو دیکھا جائے تو قبائلی نظام کا آغاز چھوٹے قبائل کے مابین علاقائی بنیادوں پر مسابقت سے اس ابتدائی دور میں ہوا جب 80 ہزار سال قبل ہمارے آباؤ اجداد افریقہ کی چراگاہوں میں شکار پر گزر بسر کر رہے تھے۔ ایک نظریہ جو یاسیت پر مبنی ہے، اس کے مطابق قبائلی شناخت ہمارے جینز میں شامل ہے اور کبھی نہیں بدل سکتی۔ اس کے مطابق انسانی فطرت متعین اور تغیر سے مبرا ہے۔

اس منطق کے مطابق ہم انسانوں کو ایک دوسرے سے لڑنے سے اسی طرح نہیں باز رکھ سکتے جیسے ہم کتوں اور بلیوں کو باہم لڑنے سے نہیں روک سکتے۔ تاہم جدیدیت اور صنعتی ترقی کے دور نے اس نظریے کا رد پیش کر دیا۔ جوں جوں معاشرے مزید متنوع اور پیچیدہ ہوتے گئے، قبائلی شناختیں کمزور پڑتی گئیں۔ انسان اپنے آپ کو بڑے گروہوں کے ساتھ جوڑ کر شناخت کرنے لگے، جیسا کہ بڑی قومی ریاستیں جن میں تمام رویے اصول کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی قانون وضع ہوا تو اس نے ریاستوں کے مابین تنازعات کو حل کرنے اور تمام انسانوں کو انسانی حقوق دینے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کیا۔ بیش تر ممالک کے دستخطوں سے جاری ہونے والا اقوام متحدہ کا انسانی حقوق سے متعلق اعلامیہ انسانوں کی جانب سے اجتماعی طور پر تیار کی گئی اب تک کی سب سے بہترین دستاویز ہے۔ یہ دستاویز قبائل پرستی کی شدت سے مخالفت کرتی ہے۔

تاہم امن کی یہ بہت بڑی امید بین الاقومی قانون کی بڑھتی ہوئی منتخب پابندیوں کے باعث دم توڑ رہی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کی دنیا کے بیش تر ملکوں نے بجا طور پر مذمت کی تھی جہاں روس یوکرین کے لوگوں کو اپنے ہی قبیلے کے بھٹکے ہوئے باشندوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ یورپ اور امریکہ نے یوکرین کی تاریخ اور شناخت کو ختم کرنے کے مقصد سے ہونے والی اس روسی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

انہی ممالک نے اپنے اعلیٰ حلقوں میں شاذ و نادر ہی کسی اختلاف کے ساتھ اسرائیل کو نسل کشی کے لیے ایک بلینک چیک دے رکھا ہے۔ اسے اور کیا کہا جائے؟ دنیا کی سب سے زیادہ گنجان آباد پٹی کے تمام خارجی راستے اسرائیلیوں کے کنٹرول میں ہیں جنہوں نے غزہ میں آباد لوگوں کو خوراک اور ایندھن کی سپلائی روک دی ہے اور ان پر مسلسل فضائی حملے کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیل کے لیے مغربی حمایت سے کیا نتیجہ اخذ ہوتا ہے؟ اس کے لیے کچھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔

تاریخی لحاظ سے تیل کی دولت سے مالا مال خطے میں امریکہ کے لیے اسرائیل چوکیدار رہا ہے۔ مگر اب تیل کی وہ اہمیت نہیں رہ گئی۔ امریکہ میں تیل کے ذخائر کی دریافت اور بھاری مقدار میں تیل جمع کر لینے کے بعد مشرق وسطیٰ کے تیل پر امریکہ کا انحصار بہت گھٹ گیا ہے۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی مانند اسرائیل بھی ایک نوآبادیاتی طرز کی ریاست ہے۔ ان میں سے ہر ریاست میں مقامی آباد قبائل کو پہلے زیر کیا گیا، پھر منظم انداز میں وسائل اور زمینوں پر قبضہ کر کے ان کی تعداد کو کم کیا گیا اور آہستہ آہستہ انہیں بالکل ہی غیر اہم بنا دیا گیا۔

ان مقامی لوگوں میں سے زندہ بچ جانے والوں پر کبھی کبھار عنایت بھی کر دی جاتی ہے۔ امریکی انڈینز کو جوا خانوں کے لائسنس ملتے ہیں، کینیڈا کے اصل باشندے محض عجائب گھروں اور نوادرات میں محفوظ ہیں اور آسٹریلیا کے آبائی باشندوں کو بعض مراعات دے دی جاتی ہیں۔

گہرائی میں دیکھا جائے تو 'مغربی قبیلہ' شناخت کے اعتبار سے خود کو اسرائیل کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ نیا قبائلی نظام مخصوص نسل یا مذہب کی بنیاد پر استوار نہیں ہوا۔ بنیاد پرست یہودی ہو سکتا ہے اسرائیل میں خاصے بااثر ہوں مگر ابھی تک کلیدی فیصلہ سازی میں ان کا کوئی حقیقی کردار نہیں ہے۔ مشترکہ شناخت کی سوچ ایک جیسی زندگی گزارنے اور ایک جیسی ذہنیت رکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔

انسانیت کے لیے یہ پیچھے کی جانب سفر ہے کہ جس میں بڑے ممالک جنہوں نے کبھی قبائلی نظام کے خاتمے کی بنیاد ڈالی تھی (پاکستان نے خیر کبھی اس راستے پر چلنے کی کوشش ہی نہیں کی)، ایک مرتبہ پھر قبائل پرستی پر آمادہ ہو چکے ہیں اور تہذیبی ریاستوں کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ یورپ جو کہ جدیدیت کا گہوارہ اور ہیومنزم کی جائے پیدائش ہے، اپنے ہی اصولوں کو بھول کر 'یورپی لائف سٹائل' کے دفاع پر کمربستہ ہو چکا ہے۔

اگرچہ تمام نہیں تو بیش تر تہذیبی ریاستیں دیگر ایسی ریاستوں کے لیے نہایت ظالم ثابت ہوتی ہیں جو انہیں خود سے مختلف نظر آتی ہیں۔ اس کی واضح مثال وہ ہے جو اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ مگر یہ طرز عمل صرف اسرائیل تک محدود نہیں، بھارت مسلمانوں کے ساتھ اور چین اویغور کمیونٹی کے ساتھ بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔

اسرائیل فلسطین تنازعے میں حملے اور جوابی حملے کے سلسلے کے سوا کسی اور بات کا امکان خال خال ہی نظر آتا ہے۔ فلسطینیوں کو بحیثیت قوم صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل پہلے سے بھی زیادہ قوت لگائے گا۔ جواب میں حماس فلسطینیوں کے لیے مزید اونچی آواز اٹھائے گا اور مزید یہودیوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب تک فلسطینیوں کو اپنا گھر نہیں مل جاتا، دنیا اس تنازعے سے کچھ مختلف کی توقع نہ ہی رکھے تو بہتر ہے۔

**

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔