عالمی برادری کا دہرا معیار دیکھیے کہ کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی بربریت کے جواب میں اسے حماس کا حملہ اور فلسطینیوں کا خود کا دفاع دہشت گردی لگنے لگا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جان چاہے مسلمانوں کی جائے یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی، مساوی طور پر تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ایک اسپتال پر حملہ کر کے تمام انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دیں۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ برطانیہ، یورپ اور امریکہ جو خود کو انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار مانتے ہیں، مسلسل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ امداد تو غزہ بھی بھیجی ہے جو کہ اسرائیل کی جانب سے پوری کوشش ہے کہ فلسطینیوں تک نہ پہنچے۔ لیکن مسلم امہ کے حکمران خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں؟
امریکی صدر جوبائیڈن کے مطابق ہسپتال پر حملہ اسرائیل کی جانب سے نہیں کیا گیا۔ تو پھر یہ حملہ کیسے ہوا؟ میں سوال پہ سوال کر کے بھی کیا کر لوں گی؟ بات یہ ہے کہ میرے مسلمان بہن بھائی اس وقت تکلیف میں ہیں۔ کسی سے اس کی ماں اور کسی سے اس کا بیٹا چھین لیا گیا ہے جبکہ کسی کا پورا خاندان اس اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے۔ باقی ہر وقت بمباری کا خوف اور دہشت لیے زندہ ہیں۔ مسلمان جن کی تاریخ بہترین حکمرانوں سے بھری ہوئی ہے آج تک ایک بھی ایسا پلیٹ فارم نہیں بنا سکے جس پر غزہ کی بات ہو سکے۔
سوشل میڈیا پر آپ آواز اٹھائیں تو اکاؤنٹ بین ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کی جو مثال اس وقت اسرائیل نے قائم کی ہے وہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ ایک ہسپتال پر حملہ کرنا اور مریضوں سمیت کئی ڈاکٹرز کی جانیں لے لینا، یہ کون سا ڈیفنس ہے؟ اگر اسرائیل کو سیلف ڈیفنس کا حق ہے تو فلسطین کو کیوں نہیں؟ عالمی میڈیا کا مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا نئی بات نہیں لیکن اصل دہشت گرد ہے کون؟ یہ فیصلہ تو وقت کرے گا۔
بڑی حیرت ہے کہ پاکستان کی ریاست کی جانب سے خاطر خواہ امداد کا اعلان تک نہیں کیا گیا البتہ یہ تو کنفرم ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، نا کریں گے اور ہمیشہ سے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں نے کئی نوجوانوں کو اس سب سے بے خبر دیکھا تو عجیب سا لگا کیونکہ یہ تاثر کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، انتہائی غلط ہے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا؛
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
اپنی بات اس سوال پر ختم کروں گی کیونکہ تکلیف اس قدر ہے کہ مزید کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں۔
ایک مسلمان کی تکلیف آج دوسرے کا موضوع کیسے نہیں؟