بےنظیر بھٹو کا فسانہ

یہ اس وقت کی بات ہے جب بے نظیر بھٹو دسمبر 1988 میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم اور پہلی بار وزیرِ اعظم بنیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے پاکستان کی دنیا بدل جائے گی۔ پاکستان کے عام لوگوں کے دلدر دورہو جائیں گے۔ بہت کچھ بدل جائے گا۔

پھریوں ہوا کہ ابھی چھ سات ماہ گزرے تھے کہ انھوں نے جون 1989 میں امریکہ کا سرکاری دورہ کیا، اور امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ خطاب پاکستان میں بھی نشر کیا گیا۔ میں نے بھی بڑے شوق اور فخر سے سنا۔ مگر یہی وہ خطاب تھا، جسے سن کر ان پر سے میرا اعتبار اٹھنے لگا۔ ایک دراڑ پڑ گئی تھی۔

بے نظیر نے خطاب کے دوران امریکی نمائندگان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’میرے دوستو، یہی وقت ہے پاکستان میں معجزات برپا کرنے کا۔‘ [“The time is right, my friends, to make miracles in Pakistan.”]

بھئی لوگوں نے اپنے ووٹ سے آپ کو وزیرِ اعظم بنایا۔ آپ کو حکمرانی کا اختیار دیا۔ اور یہ اختیار اس لیے دیا کہ آپ انھیں پاکستان میں معجزات برپا کرنے دیں۔ نا کہ آپ امریکہ جا کر وہاں امریکی حکمرانوں سے کہیں کہ وہ پاکستان آ کر معجزات برپا کریں۔

اب جب میں نے دوبارہ اس خطاب کو سنا تو مزید مایوسی ہوئی۔ بھاری بھرکم لفاظی، تصنع، دکھاوا، نمائش۔ ان کا پورا خطاب مرعوبیت اور اداکاری سے بھرا ہوا تھا۔

اس سے پہلے جب فوجی آمر جنرل ضیاالحق کی موت واقع ہوئی، اور بے نظیر بھٹو ’’جلاوطنی‘‘ ختم کر کے پاکستان واپس آئیں، تو لاہور میں ان کا جو ’’فقید المثال‘‘ استقبال ہوا، خود میں بھی اس کا حصہ تھا۔ اصل میں یہ امیدوں سے بھرا استقبال تھا۔ ایک اچھے مستقبل کی امیدوں سے بھرا۔ گوکہ اس میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی شامل تھی، جو بغیر سوچے سمجھے یہ نعرہ لگا رہا تھا: ’’وزیرِ اعظم بے نظیر۔‘‘ یعنی اس گروہ کا تعلق بس انھیں وزیرِ اعظم بنوانے سے تھا۔ اس کی خوشی یہی تھی کہ وہ وزیرِ اعظم بن جائیں۔ انھیں کچھ ملتا ہے، یا نہیں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ (یہ پاکستان کے عام لوگوں کا نہایت خطرناک گروہ ہے، جس کا مقصدِ حیات کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کو وزیرِ اعظم بنوانا ہوتا ہے۔)

ابھی گذشتہ برس لاہور میں ایک ریسٹورینٹ میں، پیپلز پارٹی سے متعقل گفتگو چل رہی تھی۔ میں نے کہا: ’پیپلز پارٹی بہت بڑا دھوکہ (Betrayal) تھی۔‘ بہت سی بھنوئیں تن گئیں۔ پیشانیوں پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔ میں نے اضافہ کیا: ’اور اب پی ٹی آئی دوسرا بڑا دھوکہ ہے۔‘

کسی نے غصے سے پوچھا: ’کس کےساتھ دھوکہ۔‘ میں نے کہا: ’کس کے ساتھ کیا، لوگوں کے ساتھ ۔‘ اب اور کسی سوال نے سر نہیں اٹھایا۔ مجھے میدان خالی مل گیا:پاکستان کے لوگوں نے جتنا بھروسہ اور اعتماد ذوالفقار علی بھٹو پر کیا، مگر لوگوں کو کیا ملا۔ اتنا ہی بھروسہ بے نظیر بھٹو پر بھی کیا۔ مگر کیا ملا۔‘

ایک بات اور جو اکثر ستاتی رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اخبارات میں اشتہار چھپتے تھے: ’’نیشنالائزیشن فار دا پیپل۔‘‘ پھر بہت وقت گزر گیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت بنی، اور اب اخبارات میں اشتہار چپھنے لگے: ’’پرائیوٹائزیشن فار دا پیپل۔‘‘

یہ کیا ہے؟ کیا یہ ایک ہی سیاسی فلسفہ ہے، جو کبھی قومیانے کی بات کرتا ہے، اور کبھی نج کاری کی۔ یا پھر یہ کوئی سیاسی فلسفہ نہیں۔ محض موقع پرستی کی سیاست ہے۔ اصل فلسفہ اقتدار کا فلسفہ ہے۔

ایک اور مرحلہ تب آیا، جب میں بے نظیر بھٹو کی کتاب: ’’ری کانسیلی ایشن: اسلام، ڈیموکریسی، اینڈ دا ویسٹ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ میرا ارادہ اس پر تبصرہ لکھنے کا تھا۔ تیسرے باب میں جہاں مشرقی پاکستان کے بحران اور پھر بنگلہ دیش کے قیام سے متعلق بحث ہے، وہاں انھوں نے ایسے پینترا بدلا اور حقائق و واقعات سے یوں نظر چرائی کہ خود مجھے شرمندگی محسوس ہوئی۔ یعنی انھوں نے اس بحران میں اپنے والدِ محترم کے کردار پر بات کرنے سے احتراز کیا۔ میں وہاں سے آگے کتاب نہیں پڑھ سکا۔ اگر دیانت داری مفقود ہے، تو پھر آپ جو کچھ بھی لکھتے رہیں، کوئی فائدہ نہیں۔ مراد یہ کہ جو دیانت داری کو سیاست کی بھینٹ چڑھا سکتا ہے، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

کتنے ہی ایسے ’’انکشافات‘‘ تھے، جنھوں نے بالاخر پیپلز پارٹی سے کامل لاتعلقی قائم کروا دی۔ اس میں یقیناً وقت لگا۔ کیونکہ ہم کہیں نہ کہیں جذباتی وابستگی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے، سیاست دان جس کا استحصال کرتے ہیں۔

اب ان دونوں شخصیات کے پیچھے، ان کی سیاست کے پیچھے، پیپلز پارٹی کا اصل چہرہ نظر آنے لگا۔  

میں گذشتہ ایک دہائی سے بار بار یہ کہتا آ رہا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے فسانے پاکستان کے سیاسی ارتقا کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دور ہونا چاہیے۔

مگر غالباً یہ ’’نفسیاتی ٹھہراؤ‘‘ ہے۔ نہ صرف دانش وروں اور سیاسی دانش وروں کا ایک بڑا گروہ، پیپلز پارٹی سے جڑا پرانے ’’پِپلیوں‘‘ کا ایک جتھا، بائیں بازو کا ایک معتد بہ حصہ، اور پھر انھی لوگوں کے ہاتھوں اسی تربیت سے گزرے نوجوانوں ایک بڑا حصہ، اسی نفسیاتی ٹھہراؤ کا شکار بنا ہوا ہے۔

لاہور الحمرا میں فیض میلے میں ’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘‘ گاتا گروہ ’’زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے۔‘‘ کے نعرے بھی لگا رہا تھا۔

یہ نہ صرف نفسیاتی ٹھہراؤ ہے، بلکہ نفسیاتی فرار بھی ہے۔ نفسیاتی ٹھہراؤ اس لیے کہ کوئی خوف ہے، جو ان لوگوں کو اس ٹھہراؤ سے باہر نہیں نکلنے دیتا۔ انھیں خوف ہے اس ’’ٹھہراؤ‘‘ سے باہر نکل کر کہاں جائیں۔ کیونکہ اور کوئی راستہ، اور کوئی راہِ عمل، اور کوئی بیانیہ وجود نہیں رکھتا۔

نفسیاتی فرار اس لیے کہ نئے راستے کا تعین کیسے کیا جائے۔ نئی راہِ عمل کون تراشے۔ اور نیا بیانیہ کون ترتیب و تخلیق کرے۔

یہ وہ بڑے عوامل ہیں، جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے فسانوں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ وگرنہ اب تک یہ فسانے اپنی عمر پوری کر چکے ہوتے۔

ایک اور بڑا عامل بھی ہے، جو ان فسانوں میں جان ڈالے ہوئے ہے۔ اب تک دونوں شخصیات کی سیاسی فکر و عمل  پر بے لاگ اور عالمانہ انداز سے تصنیفی و تحقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو کچھ لکھا گیا، وہ محض تعریف و تحسین ہے، یا پھر تنقید و تنقیص۔ دونوں شخصیات کے ضمن میں ایک درست قدراندازی نایاب ہے۔ جبکہ ایک ایسی ہی قدراندازی ان کے فسانے کی حقیقت کو سامنے لا سکتی ہے۔

ایک نہایت اہم سوال جو میں خود سے پوچھتا رہا ہوں، اور جس کا کوئی تسلی بخش جواب مل نہیں سکا، وہ یہ ہے۔ آج 72 برس بعد پاکستان کے شہری، معاشرہ، ریاست، سیاست، اور معیشت جہاں کھڑے ہیں، تو اس کی کچھ نہ کچھ ذمے داری ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو پر بھی عائد ہوتی ہے، یا نہیں۔ یا اگر ان دونوں کو ’’عظیم لیڈر‘‘ اور ’’عظیم شخصیات‘‘ اور ان کی سیاست کو ’’عظیم سیاست‘‘ قرار دیا جاتا ہے، تو پھر پاکستان کے شہری، معاشرہ، ریاست، سیاست، اور معیشت، جہاں کھڑے ہیں، یہ وہاں کیوں کھڑے ہیں۔ یہ دونوں باتیں بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں!

بلکہ میں یہی سوال ان تمام لوگوں سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں، جو پیپلز پارٹی، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مثبت کارنامے بیان کرتے نہیں تھکتے۔ حتیٰ کہ ان کے منفی کاموں، جیسے کہ ’’این آر او‘‘ کا جواز بھی پیش کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس طرح یہ لوگ ان تینوں کی عظمت کو ثابت کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہہ کر کہ کوئی بھی مکمل طور پر درست نہیں ہوتا۔ تو یہ بات تو پھر جینرل ضیا الحق کے بارے میں بھی درست ہو گی۔ یہاں بھی مثبت کارنامے ڈھونڈنا کوئی اتنا مشکل کام تو نہیں ہو گا۔

اور آخر میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جہاں تک ایک نئے سیاسی بیانیے کا تعلق ہے، وہ وجود میں آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کے قضیے یہاں وہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ خود یہ تحریر اور اس کی پشت پر کارفرما سوچ بھی اسی نئے سیاسی بیانیے کا حصہ ہے۔ یہ نیا بیانیہ آگے کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ نیا بیانیہ ایک ایسی سیاست کا ڈول ڈالتا ہے، جو اخلاقی اصولوں سے اغماض نہیں برتتی، بلکہ ان پر استوار ہوتی ہے۔ یہ سیاست، اقتداری سیاست کی قدر کو مسترد کرتی ہے۔ اور یہ سیاسی جماعت کو ایک ادارے کی حیثیت دیتی ہے، نہ کہ ایک ایسی جماعت کی حیثیت، جو اس جماعت کے مالکوں کے ذاتی، خاندانی اور جماعتی مفادات کی نگہبان بنی رہے۔