مودی کا دعویٰ تھا نوٹ بندی سے تشدد کم ہوگا۔ مگر کشمیر میں مزاحمت جاری ہے

مودی کا دعویٰ تھا نوٹ بندی سے تشدد کم ہوگا۔ مگر کشمیر میں مزاحمت جاری ہے
2008 سے کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے پتھر بازی ایک علامتی ذریعہ بن گیا ہے۔ علمائے کرام اور کارکنان اکثر پتھر بازی کو عدم تشدد کے مظاہرے کی شکل دیتے ہیں۔ تاہم، کشمیر میں پتھربازی سے متعدد شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو ہلاک اور زخمی کیا گیا ہے۔

کشمیری نوجوانوں کی طرف سے پتھر بازی کے بڑھتے استعمال کی بھارت میں ایک مقبولِ عام مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کی جانب سے اس کے لئے کشمیری مظاہرین کی مالی مدد کرتی ہے۔ 2016 میں، ایک نوجوان اور مقبول عسکریت پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھی بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے ایسا ہی دعویٰ کیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان کشمیری نوجوانوں کو پتھر پھینکنے کے لئے 500 روپے فی کس ادا کر رہا ہے۔ اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ ادائیگیاں 100 کروڑ کا بجٹ جو آئی ایس آئی نے گذشتہ سال جموں و کشمیر میں تشدد کو بڑھاوا دینے کے لئے مختص کیا، میں سے کی جاتی ہیں۔

2017 میں پکڑے گئے چند پتھر پھینکنے والوں نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ پاکستانی اداروں نے انہیں سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینکنے کے لئے ماہانہ تقریباً 5000 سے 7000 تک روپے کی ادائیگی کی۔

ہندوستانی فوج کے مطابق، عسکریت پسند بننے والے تمام نوجوانوں میں سے 83 فیصد نے 500 روپے میں پتھر بازی کے ساتھ عسکریت پسندی کا آغاز کیا۔ اس وجہ سے بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو پتھربازی میں حصہ لینے سے روکنا ہوگا۔

8 نومبر 2016 کو کشمیر میں مودی کی حکومت نے اپنی نوٹ بندی کی پالیسی شروع کی اور اس پالیسی کو شروع کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ اس سے کشمیر میں تشدد کا عنصر کم ہوگا۔ نوٹ بندی کی پالیسی کی وجہ سے راتوں رات ملک کے 86٪ نوٹ بیکار ہو گئے۔

بھارتی حکومت نے متعدد وجوہات کی بنا پر اس نوٹ بندی کی پالیسی کا دفاع کیا۔ مثلاً، 1۔ یہ ہندوستان کو زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جانے کی کوشش ہے؛ 2۔ بلیک مارکیٹ کی مضبوطی کو کمزور کرنے کی کوشش ہے؛ اور 3۔ پاکستان کے حمایت یافتہ تشدد کو ختم کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ مودی کی حکومت نے مضبوط ثبوتوں کے باوجود آخری مقصد میں کامیابی کا دعویٰ کیا۔ در حقیقت، 2018 میں پچھلی ایک دہائی میں متشدد مزاحمت کے حوالے سے کشمیر میں خطرناک ترین سال تھا۔

اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ بہت سارے ہندوستانی مبصرین جو  ویسے تو اس نوٹ بندی کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں، کسی بھی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نوٹ بندی نے ثبوتوں کے برعکس کشمیر میں تشدد کو روک دیا تھا۔

ہماری تحقیق کے دوران کیا گیا سروے ان دعووں کو غلط ثابت کرتا ہے

2100 ہندوستانیوں کے قومی نمائندہ سروے کے مطابق، 70 فیصد سے زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ نوٹ بندی نے دہشت گردی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ اس نے جموں و کشمیر جیسی ریاستوں اور "بائیں بازو" کی دہشت گردی جو کہ کئی ریاستوں میں جاری تھی، اس کی فنڈنگ ​​کو بہت بڑا دھچکہ پہنچایا ہے۔ اسی سروے میں، زیادہ تر جواب دہندگان نے شبہ ظاہر کیا کہ پالیسی نے اپنے دوسرے مقاصد حاصل نہیں کیے۔

ممکن ہے کہ پاکستان کشمیر اور بھارت میں کئی جگہوں پر تشدد کو ہوا دیتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے کچھ پتھر پھینکنے والوں کو معاوضہ دیتے ہوں۔ لیکن اس بات کا قطعی امکان نہیں ہے کہ تمام پتھر پھینکنے والے افراد کو معاوضہ دیا جاتا ہو یا اس معاوضے کی وجہ سے وہ پتھر پھینکتے ہوں۔ حقیقت شاید کہیں بھارتی ظلم کے پاکستانی دعووں اور ہندوستانی الزامات کے درمیان ہے۔ اور بیچارے کشمیری بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں۔

بھارت کے نوٹ بندی اور کشمیر پر اس کے اثرات کے حوالے سے دعووں کا جائزہ لینے کے لئے میرے ساتھیوں اور میں نے یکم اگست 2013 سے 31 دسمبر 2017 کے درمیان روزانہ پتھر بازی کے واقعات کا ضلعی سطح کا ڈیٹاسیٹ بنایا۔

ہم نے دیگر اہم عوامل کا ڈیٹا بھی جمع کیا جو پتھر مارنے کا سبب بن سکتے ہیں، یعنی بشمول موقع کے اخراجات، موسم کے عوامل، دن جمعہ کا ہو یا رمضان کا، ضلع دیہی ہو یا شہری، اور ضلع کی آبادی زیادہ تر مسلمان ہو یا غیر مسلموں پر مشتمل ہو۔ ہمارے ڈیٹا سیٹ میں 1 اگست 2013 اور 31 دسمبر 2017 کے درمیان پتھر بازی کے 797 مشاہدات شامل ہیں۔ ہم چارٹ 1 میں وقت کے مطابق رجحان اور چارٹ 2 میں ضلع وار رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔

چارٹ 1: وقت کے مطابق پتھر مارنے کے رجحانات



چارٹ 2: ضلع کے لحاظ سے پتھر بازی کے رجحانات



غیر معمولی موسمی رجحانات (درجہ حرارت اور بارش)، رمضان کی موجودگی، علاقے کی نوعیت (شہری/دیہی، آبادی کی ساخت)، معاشی مواقع کے اخراجات جو پتھر بازی پر لگائے جاتے ہیں اور بعد میں ممکنہ گرفتاری، یا ان میں سے کچھ یا تمام متغیرات کا مجموعہ پتھر بازی کے واقعات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے، پتھر بازی پر نوٹ بندی کے اثرات کو درست طریقے سے جاننے کے لئے، ہم رجعتی تجزیوں (regression analysis) کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں بھارتی حکومت کے اس دعوے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نوٹ بندی نے پتھر بازی کو کم کیا۔ مختصراً، در حقیقت ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نوٹ بندی کے بعد پتھر بازی میں اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ دوسرے عوامل جیسے درجہ حرارت، بارش، معاشی مواقع کے اخراجات اور ضلع کے آبادیاتی اعداد و شمار پر قابو پانے کے بعد بھی حقائق جھٹلائے نہیں جا سکتے تھے۔

یہ تحقیقی کیوں کی گئی؟

پتھر بازی پر نوٹ بندی کے حقیقی اثرات کو سمجھنا کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ سب سے پہلے وہ ہندوستانی جو یقین رکھتے ہیں کہ شورش زدہ ریاست میں تمام پریشانیاں پاکستان کی وجہ سے ہوتی ہیں، کشمیریوں کے عدم اطمینان کو ناجائز سمجھتے ہیں، ان کے لئے واضح کرنا ضروری ہے کہ اعداد و شمار کے مختلف ذرائع خاص طور پر وادی میں کشمیری مسلمانوں میں مسلسل شکایات کی تصدیق کرتے ہیں۔

سرکاری بیانیے کے مطابق مایوس کشمیری 'گمراہ نوجوان' سرحد پار سے "ریموٹ کنٹرول" کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور پاکستانی منصوبے کے تحت کام کر رہے ہیں جس کے مطابق کشمیری آئندہ کسی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے خود نومبر 2019 میں سرینگر میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے پتھر مارنے والوں کو "گمراہ نوجوان قرار دیا جو غیر ملکی طاقت کے جھوٹے پراپیگنڈے کے زیر اثر ہیں" اور وضاحت کی کہ ہر پتھر یا ہتھیار جو نوجوانوں نے اٹھایا ہے، یہ صرف ان کی اپنی ریاست کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ہے۔

مودی سرکار اور مبصرین کے اس قسم کے دلائل پتھر بازوں کو ریاست کی ناکامیوں کے بجائے ریاست میں ترقی اور جمہوریت کی راہ میں بنیادی رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس طرح کشمیری عدم اطمینان کے ذرائع پر غور کرنے کی کوئی اخلاقی ضرورت بچتی نہیں ہے۔ پتھر بازوں سے متعلق یہ بیانیہ ان کے لئے پورے ہندوستان میں کسی بھی قسم کی سیاسی ہمدردی کو ختم کر کے ان کے مسائل پر بحث کی گنجائش کو مفقود کر دیتا ہے تاکہ کسی بھی آئینی یا سیاسی فریم ورک کے اندر ان کی شکایات پر غور نہ کیا جا سکے۔

اس طرح کی بھارتی سوچ پاکستان کو ایک زبردست دلیل فراہم کر دیتی ہے کہ بھارتی حکومت کشمیری عوام کے جائز مطالبات کو سیاسی اور قانونی بحث کا حصہ ہی نہیں بننے دینا چاہتی۔ اور یہ دلیل پاکستان کو خود بھارتی حکومت کے اقدامات فراہم کرتے ہیں۔

کرسٹین فیئر جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور جنوبی ایشیا پر کئی کتابوں اور مقالوں کی مصنفہ ہیں۔