عمران خان جو کہ بانگ دہل ہر جگہ یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے۔ کہ میری 22 سال کی جدوجہد تھی۔ جس کی وجہ سے یہاں تگ پہنچ چکے ہیں۔ بارہا یہ بھی کہتے ہوئے سنا گیا ہے۔ کہ میں نیا پاکستان بنانے جا رہا ہوں۔
عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے 2018 کے الیکشن جیتے اور برسراقتدار آئے۔ الیکشن کمپین میں جو وعدے کیے کہ میں 90 دن میں پاکستان میں کرپشن ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر پانچ سالوں میں بناؤں گا۔ گاؤں میں رہنے والی خواتین کے لیے مرغیوں اور انڈوں کے کاروبار کے تجاویز دیے۔ ساتھ میں بھیڑ بکریاں پالنے کے لئے آسان اقساط پر قرضہ فراہم کرنے کے وعدے کیے گئے۔ یہ وہ انوکھے اور نئے مشورے ہیں، جن سے نیا پاکستان بنانے کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی مشہور تقاریر جن میں وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ جن ملکوں میں مہنگائی، ڈالر کے دام بڑھتے ہیں، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک اور پاکستان میں دوسری اس کا مطلب ہے کہ حکمران چور ہے۔
جن سیاستدانوں سے نفرت اور اُن کے لیے برا بھلا بولتے تھے ان کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی، اور ان کو اپنے پارٹی میں شامل کرنے کے لیے راستے ہموار کیے، اور اپنی سابقہ ٹیلی ویژن شوز میں جناب فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہماری حکومت آئی تو ہم سب سے چھوٹی کابینہ بنائیں گے، اب جناب عالی نے کابینہ میں پچاس سے زیادہ مشیر اور وزیر رکھے ہیں۔ سکے کے دوسرے رخ میں اس بے کار حکومت نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا کے رکھ دیا ہیں: اسٹیل مل، پی ٹی وی، اور کئی سرکاری محکموں سے ملازمین کو برطرف کر دیا گیا ہیں۔ نوکریاں دینے کی بات تو دور ان سے چھینی جا چکی ہیں۔ سالوں کی محنت ومشقت اور ریٹائرمنٹ کے بعد بزرگ ملازمین سے ماہواری پنشن چھیننے کی سازشیں ہورہی ہے۔
پاکستان کی بیکار وعدہ خلاف حزب اختلاف کی پارٹیوں نے اس عوام دشمن حکومت کو ڈھیل اپنے پرانے اکابرین کے ایماء پر دی۔ پاکستان اور پاکستان کے عام شہریوں کی قسمت بھی عجیب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب کے آمریت میں وزیر خارجہ اور ان کے چہیتے، بعد میں کوشش کی نیشنل عوامی پارٹی میں جانے کی، مگر وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو پارٹی نامنظور تھی۔ اس لئے ان کو روکا گیا وہاں جانے اور رہی سہی کسر خان عبدالولی خان نے پوری کی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی عوام نے گلے لگایا، انتخابات ہوئے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے برتری حاصل کی، یہاں پر یعنی مغربی پاکستان میں اکثریت پی پی پی کو ملی، مجیب رحمان کو واضح اکثریت حاصل تھی مگر وزیراعظم نہ بن پائے۔ جس کی وجہ سے سانحہ بنگال ہوا! جن میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنےجبکہ سینکڑوں کی عصمت دری ہوئی۔
نیشنل عوامی پارٹی پر یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اپنے ادوار میں پابندی عائد کی ( کچھ انقلابی کام بھی ہوئے جن میں آئین پاکستان شامل ہے اس کے ساتھ نیشنلائزیشن بھی ہوئی)۔ 5جولائی 1977 کی مارشل لاء، ذولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل، ظلم کی ایک اور داستان ہے۔ اس دور نا پرساں کے بعد جنرل جیلانی اور جنرل ضیاءالحق کے چہیتے کا دور آتا ہے۔ جس میں وہ سارے تماشے ہوئے جو پچھلے ادوار میں ہوئے تھے۔ 1993 میں میاں محمد نواز شریف، ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انقلابی بننے کا وعدہ کرتا ہے اور 1999 تک میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے بیچ اقتدار کی کنجی کے لئے جو جو ہوا، اس کا بھی سارا زمانہ گواہ ہے۔1996 میں عمران خان جو کرکٹ اسٹار تھے جنرل حمید گل اور کچھ جنرلز یا اسٹیبلیشمنٹ کے ایماء پر پارٹی بناتے ہیں جن کو تحریک انصاف کا نام دیا جاتا ہے ( عمران خان اس کو اپنی جدوجہد اور محنت کہتا ہے؟)۔
قصہ مختصر اس ملک میں سب سے زیادہ تباہ و برباد یا جو نقصان پہنچا ہے ( بلی کا بکرا بنی) وہ ہے بیچاری عوام ہے۔ جو غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اشیائے خوردونوش ان کے پہنچ سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بے روزگاری اور قسم پرسی نے والدین کو اپنے بچوں کا قاتل بنا دیا۔ مہنگائی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کی طرح مغرور اور ظالم ہو چکی ہے۔ عوام بیچاری کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جنرلز، ججز، سیاستدان اور میڈیا مالکان کے گٹھ جوڑ نے اپنے عوام کا وہ حشر کیا ہے کہ کوئی دشمن بھی نہ کرے۔ باوجود73 سالہ مظالم کے عوام نے ہر دور میں پتھر دل حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ اقتدار کی دوڑ کے لیے حکمران تو عوام کی جان و مال، عزت و ناموس کے لئے تقاریر اور وعدے تو کرتے ہیں مگر اقتدار کی کنجی مل جانے کے بعد عوام اسے بھول جاتے ہیں خواب خرگوش اور جام اقتدار کے نشے میں کہ نئے انتخابات آجاتے ہیں۔
یاد رکھو اے حکمرانو! عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج چاہیے نہ کہ افسانوی، خیالی اور لفاظی کہانیاں ۔ پیٹ کو روٹی، تن کو کپڑا، سر کو چھت چاہیے جب یہ حقوق میسر نہ ہوں تو شرعی حد بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ خالی پیٹ کو فلسفہ نہیں روٹی چاہیے ۔ اے وقت کے حکمرانوں ڈرو اس دن سے کہ یہ عوام اپنے جلال میں آ جائے اور روڈوں پر نکل آئے بغیر لیڈر کے اور لگ جائے عوامی عدالت: جس میں سزا اور جزا کا معیار انوکھا ہوگا۔
سیاسی جبر کے مخالفت کے لئے مشہور حبیب جالب
!صاحب کی مشہور نظم
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا