فیک نیوز کو پہچاننا اور اسے روکنا کیوں اتنا مشکل ہوتا ہے؟

فیک نیوز کو پہچاننا اور اسے روکنا کیوں اتنا مشکل ہوتا ہے؟
کچھ روز قبل بھارتی سنیما کی فلم 'افواہ' دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس طرح ایک جھوٹی خبر سچی بن جاتی ہے اور لوگ اسے سچ مان کر اس پر یقین کرنے لگتے ہیں حالانکہ لوگوں کے پاس معلومات کے ذرائع بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر ویب سائٹ اور ٹوئٹر پر بڑے بڑے صحافی اور میڈیا کے ادارے اس کو کور کرتے ہیں مگر پھر بھی لوگ فیک نیوز کو شیئر کرتے ہیں اور وہ اتنی زیادہ شیئر ہو جاتی ہے کہ اچھے بھلے لوگ بھی اسے سچ ہی تصور کرتے ہیں اور وہ بھی اس گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں جسے فیک نیوز اور پروپیگنڈا کی دنیا کہتے ہیں۔

آپ نے جوں ہی سوشل میڈیا کھولا، کئی وٹس ایپ گروپس جن میں آپ ایڈ ہیں، ان میں نیوز شیئر ہوئی تھی۔ فیس بک کھولی، ٹوئٹر کھنگالا، آپ کی نگاہ اس نیوز تک گئی آپ کو نیوز نے متاثر کیا اور جلدی میں دوسرے کو شیئر کرنی کی کوشش کی۔ یہ سوچ کر کہ دنیا کو اور اپنی کمیونٹی کو یہ بتاؤں کہ میں بھی اپ ٹوڈیٹ ہوں، مجھے بھی حالات کی خبر ہے یا کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے جس کو آپ شئیر کرنا چاہتے ہیں اور یہ کام لمحوں کا ہوتا ہے۔ نیوز دیکھی اور پھر شیئر کا بٹن دبا دیا اور وہ آپ کی لسٹ کے تمام لوگوں تک پہنچ گئی۔ ان میں سے بھی بہت سوں نے آپ کی طرح اسے شیئر کیا اور وہ شیئر ہو کر ہاٹ نیوز بن گئی حالانکہ وہ نیوز فیک تھی۔

آپ اس کو روک بھی سکتے تھے اگر آپ ایک کام کرتے۔ کسی اچھی سی ویب سائٹ پر جاتے، کچھ صحافیوں کو ٹوئٹر پر چیک کرتے یا وہی نیوز کاپی کرکے ٹوئٹر کے سرچ بار میں ڈال لیتے جس پر کسی نہ کسی نے کمنٹ کیا ہو گا۔ اور یہیں سے آپ کو اندازہ ہو جاتا کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی۔ اسی طرح ویڈیو اور تصویر کا بھی پتہ چل جاتا ہے مگر ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کرتا اور یوں فیک نیوز پھیل جاتی ہے جو کہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیک نیوز کیونکر شیئر کی جاتی ہیں، اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ تو یہ سب لائیک کے چکر میں کیا جاتا ہے جو کہ یوٹیوب سے ہوتے ہوئے اب دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی آ گیا ہے۔ پہلے یہ سب صرف یوٹیوب پر ہوتا تھا جب یوٹیوبر تھمب نیل بناتے تھے تاکہ لوگوں کو متاثر کیا جائے۔ ویڈیو میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جبکہ باہر تصاویر ایسی ڈالی جاتی تھیں کہ بندہ مکمل ویڈیو دیکھ لیتا تھا۔

جس طرح جب شام کے اخبارات کی دھوم مچی تھی اور روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر نے شام کے اخبارات میں سنسنی خیز نیوز کی شروعات کی تھی۔ یہ جنرل مشرف کا دور تھا جب میڈیا کو بڑی آزادی ملی اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ پرنٹ میڈیا میں بھی اس قسم کی خبریں چھپتی تھیں حالانکہ چیک اینڈ بیلنس کے لئے پیمرا کا وجود بھی لایا گیا تھا۔ اس وقت شام کے اخبار کی جو خبریں ہوتی تھیں وہ آج کے دور کی فیک نیوز سے بھی آگے تھیں۔ جس طرح شام کے ایک اخبار میں خبر لگی تھی کہ مشرف قتل ہو گئے اور ہاکر بازاروں میں اخبار لے کر یہ آوازیں لگا رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہوتی کہ ہاکر اخبار کسی کو ہاتھ میں نہیں دیتا تھا اور دوڑتے ہوئے نیوز سناتا تھا اور لوگ اخبار خرید کر پھر ہاکر کو گالی دیتے تھے کیونکہ اخبار میں جنرل مشرف نہیں، کوئی اور مشرف نامی بندے کا قتل ہوتا مگر عوام کو الو بنانے کے لئے اس قسم کی خبریں روز کا معمول تھیں۔

اب یہی کام جدید میڈیا نے شروع کر دیا ہے کیونکہ اب ہر بندے کے ہاتھ میں موبائل فون آ گیا ہے اور اپنی پسند کی کوئی سی بھی نیوز اپنی ذہنی اختراع کے مطابق شیئر کر دی اور لوگوں کو اس میں ٹیگ کرنا شروع کر دیا اور چلتے چلتے وہ نیوز اتنی شیئر ہوتی گئی کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگ جاتا ہے۔

کورونا وبا کے دنوں میں فیک نیوز کا کاروبار بہت پھیلا۔ جب لوگ جھوٹی خبر پھیلا دیتے کہ قہوہ سے مردان میں لوگ کورونا سے ٹھیک ہو گئے اور ایک مخصوص قسم کا قہوہ پینے سے یہ بیماری ختم ہو جاتی ہے اور لوگ دھڑا دھڑ وہ قہوہ خریدنا شروع کر دیتے۔ پھر کچھ عناصر کہتے کہ کورونا کوئی وبا نہیں، یہ ایک سازش ہے اور کسی ڈاکٹر کا بھی حوالہ دے دیتے جس پر لوگ اعتبار کرنے لگتے اور پھر وہ ایس او پیز فالو نہ کرتے اور بیماری کا شکار ہو جاتے۔ جس طرح تعلیمی اداروں کے حوالے سے شفقت محمود کی ٹوئٹ فیک آئی ڈیز سے شیئر ہوتی رہی کہ کالجز اور یونیورسٹیاں بند ہو گئی ہیں یا کھل گئی ہیں جس پر لوگ یقین بھی کرتے رہے اور تو اور کورونا وبا کو دو سال تک لوگ سازش ہی سمجھتے رہے۔

اسی طرح پولیو کے حوالے سے کئی دفعہ فیک نیوز کا بازار گرم رہا اور ہر سال علامہ اقبال کے دن کے حوالے سے فیک نوٹیفکیشن گردش کرتے ہیں کہ علامہ اقبال ڈے پر چھٹی ہو گی اور پھر حکومت کو تردید کرنی پڑتی ہے کہ کوئی چھٹی نہیں ہے۔ گذشتہ رات پھر فیک نوٹیفکیشن کا ایک زور رہا کہ یکم محرم الحرام کو خیبر پختونخوا میں چھٹی ہو گی۔ پھر تردیدی بیانات آنے لگے کہ اس میں کوئی صداقت نہیں۔ سیکرٹریٹ کے ذرائع نے خود یہ نوٹیفکیشن شیئر کیا تھا مگر پھر انہوں نے بھی ڈیلیٹ کر دیا حالانکہ وہ حکومتی ادارے کے کرتا دھرتا ہیں۔ تب چیف سیکرٹری کو کہنا پڑا کہ نوٹیفکیشن فیک نہیں ہے مگر چاند دیکھنے پر فیصلہ ہو گا۔

اس طرح بہت سی خبریں حکومت کے خلاف چلتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ایک مخصوص طریقے سے فیک نیوز کی فیکٹری بنائی تھی جس کا نیٹ ورک اتنا مضبوط تھا کہ ان کی فیک نیوز پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ اسی بنیاد پر وہ اتنے سالوں تک حکمرانی کر کے عوام کو گمراہ کرتے رہے کہ کروڑوں نوکریاں ہیں، مرغیوں سے اتنا ریونیو پیدا ہوا، ریلوے خسارے سے نکل گیا، آئی ایم ایف سے نجات مل جائے گی اور اس قسم کی بہت سی خبریں عمرانی دور میں چلتی رہیں جن پر لوگ اب بھی یقین کرتے ہیں۔

اس عمل میں ان کے ساتھ مخصوص قسم کے صحافی بھی شامل تھے جو ان فیک نیوز کو پھیلاتے تھے اور لوگوں کو ان پر یقین ہونے لگتا تھا۔ صحافت میں خاص چیز ساکھ ہوتی ہے، صحافی اگر ساکھ کھو دے تو اس کی صحافت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی قیمت پر وہ کریڈیبلٹی نہیں کھونا چاہتا۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فیک نیوز کیسے پہچانی جائے؟ تو ایک آسان سا فارمولہ ہے کہ جو پہلی نظر میں آپ کو متاثر کرے اور آپ بغیر کچھ سوچے شیئر کرنے پر مجبور ہو جائیں وہ فیک نیوز کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ وہ اتنی اٹریکٹیو بنائی گئی ہوتی ہے یا پھر آپ کے ذہن کے مطابق بنی ہوتی ہے کہ آپ کو اس پر سچ کا ہی گمان ہوتا ہے۔ جیسے کسی سیاسی پارٹی سے تعلق ہو اسے دوسری پارٹی کے کام غلط ہی نظر آتے ہیں اور وہ اسے اپیل کرتی ہے۔ اس لئے وہ اسے شیئر کرتا ہے۔ اب سیاسی وابستگی اپنی جگہ مگر غلط بات کو آگے پھیلانا کسی بھی طور جائز نہیں اور نہ ہی فائدہ پہنچاتا ہے۔

آج کل تو سچی خبر کو پہچاننا بہت آسان ہے۔ کچھ آفیشل نیوز ویب سائٹس فالو کریں، ٹوئٹر پر اچھے نامی گرامی صحافیوں کو فالو کریں جو کسی بھی پارٹی سے وابستگی نہیں رکھتے، صرف خبریں شیئر کرتے ہیں اور نیوٹرل ہوں، آپ کو صرف حقائق ہی بتاتے ہوں تو اس سے چھٹکارا مل جائے گا۔ لیکن یہاں پر آپ بس نہ کریں بلکہ اس خبر کو تین چار ذرائع سے کنفرم کر کے شیئر کریں جو کہ اچھے ذرائع ہوں تو یہ فیک نیوز کی فیکٹریاں بند ہو سکتی ہیں، ورنہ معاشرے میں افراتفری پھیلانے کا واحد ذریعہ فیک نیوز ہی ہیں جس سے لوگوں کو ٹینشن اور ڈپریشن کی بیماریاں لگ گئی ہیں۔ یعنی یہ جھوٹ کی فیکٹریاں سیلف سنسرشپ سے ختم ہو سکتی ہیں، اس کے علاوہ ان کا کوئی حل نہیں۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔