بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
انسان کے پاس زبان ہی وہ آلہ ہے جس کی مدد سے وہ اپنے افکار دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ زبان انسان کی تربیت اور تہذیب کی دلیل فراہم کرتی ہے۔ اپنی باتوں سے وہ دوسروں کا دل جیت کر ان میں نئی جان پھونک سکتا ہے یا ان کو ذلیل و خوار کر سکتا ہے۔ اقوال کی طاقت سے سب سے پہلے ہم خود مستفیض ہوتے ہیں۔ قدرت کا کچھ ایسا نظام ہے کہ ہماری کہی ہوئی بات کا براہِ راست اثر پہلے ہمارے ہی ذہن پر پڑتا ہے۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

یہ لفظ بھی عجیب شے ہے۔ انسان کے اندر بحرِ بیکراں ہے اور اس کو دوسرں تک پہنچانے کے لئے صرف الفاظ ہیں۔ ایک حرف کو دوسرے حرف سے جوڑ کر الفاظ بنتے ہیں اور ایک لفظ سے دوسرے لفظ کو ملا کر جملے بنتے ہیں۔ انہیں محدود ذرائع کے سہارے تعلقات بڑھانے ہیں۔ اپنے خیالات و افکار سے عالم کو منور کرنا ہے اور دنیا میں انقلاب بھی لانا ہے۔ اس اثنا میں انسان اپنی بات کہے بھی تو کیسے؟

بات کرنے سے پہلے یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ ہم اس کفتگو سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس گفتگو کے آخر میں کون سی معلومات کا انکشاف کرنا چاہتے ہیں جو پہلے معلوم نہیں تھی۔ اس طرح اپنے اغراض و مقاصد کا خیال رکھتے ہوئے سیر حاصل گفتگو ہو سکتی ہے اور دوسروں کی صحبت کا پورا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر بات چیت کا رخ دوسری جانب جا رہی ہو تو واپس اسے اپنے مصرف تک لایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ہم یہ طے کر سکیں گے کہ بات چیت کس وقت ختم کرنی ہے اور ہم غیر ضرور باتوں سے بھی پرہیز کر پائیں گے۔

بات کرنے سے پہلے گہری سانس لینا ضروری ہے۔ اس سے تناؤ دور ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی بات کہنے سے ہچکچاتے ہیں یا ان کو ایک خوف گھیر لیتا ہے کہ آیا ان کی بات کا یقین کیا جائے گا یا نہیں۔

کبھی کبھی جذبات و محسوسات کی ژولیدگی کے باعث ہم موزوں و مناسب الفاظ کا سہارا لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ سانس لینے سے روح کو تسکین و طمانیت ملتی ہے اور ذہن موجودہ صورتِ حال کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہم اپنی بات پر پورا دھیان دے پاتے ہیں۔ نیز گہری سانس لینے سے آواز میں مضبوطی آتی ہے اور آواز بہتر ہو جاتی ہے۔ خوف ہمیں اپنی بات کہنے سے روکتا ہے۔ جب بات کہنے کا وقت آتا ہے ہمیں بس بلاتردد اپنی بات کہنی ہے۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے

اپنی بات کہتے وقت نرم لہجہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس سے سامنے والے کو یوں محسوس نہیں ہوگا کہ اس پر حملہ کیا جارہا ہے اور وہ ہماری بات بہتر سمجھ پائے گا۔ رسولِؐ پرنور کے بارے میں خداسورۃ آل عمران آیت ۱۵۹ میں فرماتا ہے کہ تم لوگوں سے نرمی اختیار کرتے ہو۔ اگر تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ تم سے دور رہتے۔ بات کرنے میں نرمی ایک اہم عنصر ہے لیکن اپنی بات سیدھے سیدھے کہنا بھی ضروری ہے۔ کامیاب ہونے کے لئے ہمت کی ضرورت ہے اور ہمت ہی ہمیں اپنی بات کہنے میں حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے
زمیں پہ بیٹھ کے کیا آسمان دیکھتا ہے

اس کے علاوہ اپنی آواز سے دوسروں میں یہ بات بٹھائی جا سکتی ہے کہ ہمیں کون سی چیز پسند ہے اور کون سی بات یا عمل ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں ہے۔

دوسروں سے مؤدبانہ طریقے سے بات کرنا ضروری ہے اور اپنی پسند اور ناپسند کا احترام بھی لازمی ہے۔ جب لوگ بے عزتی پر اتر آتے ہیں تو اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ضروری ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کفتگو سے علیحدگی بھی اختیار کر سکتے ہیں جب تک سامنے والا ہمیں عزت نہ دے۔

کبھی کبھی بات کرتے وقت چیزیں صاف نہیں ہو پاتیں۔ اس اثنا میں سوال کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ بات صاف ہو سکے۔

سوالات کے ذریعے سامنے والے کو اپنی بات سمجھائی جا سکتی ہے اور پریشانی کا حل ڈھونڈھنے میں سوالات معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ سوالات کرنے کے بعد سامنے والے کی بات کا غور سے سننا بھی ضروری ہے تاکہ اس کا نقطۂ نظر بھی سمجھ میں آ جائے۔ اس کے علاوہ بات چیت کے دوران خاموشی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ خاموشی میں جانکاریاں اور جذبات کا صحیح پتہ چلتا ہے۔ گھبراہٹ میں ہم ضرورت سے زیادہ بول جاتے ہیں۔ گفتگو کے درمیان خاموشی میں خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ کوئی راستہ نکل کر سامنے آ سکے۔

بات کرتے ہوئے ہماری پوری موجودگی ہماری طاقت ہے۔ بات کرتے ہوئے دوسروں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اِدھر اُدھر کی چیزوں یا موبائل فون سے اپنا دھیان ہٹا کے اپنی توجہ پوری طرح مکاملے پر لگائیں۔ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا محسوس کر رہے ہیں معنی رکھتے ہیں۔

جب دوسروں کا خیال رکھا جاتا ہے تو وہ ہماری ضروریات کا خیال بھی رکھیں گے۔ اس سے رشتے میں مثبت تندیلی رونما ہوتی ہے۔ دوسرے آپ کو زیادہ تعظیم کی نگاہ سے دیکھیں گے کیونکہ آپ نے ان کو پورا دھیان دے کر ان میں اس احساس کو بیدار کیا کہ وہ آپ کی نظر میں معنی رکھتے ہیں۔ اس طرح کامیابی اور خوشیاں آپ کے قدم چومیں گی۔ بات کرتے ہوئے سب کی سننا بھی چاہیے تاکہ ہمارا فیصلہ یک طرفہ نہ ہو۔

بعض اوقات عمر کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ بچوں سے ہمکلام ہوتے ہوئے ان سے سہل الفاظ استعمال کرنا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ بات کو سمجھ پائیں۔ نیز ان کو سمجھانے کے لئے ایسی مثالوں کا سہارا لیا جائے جن سے وہ آشنا ہوں۔ چھوٹوں کی معصومیت کا پاس رکھتے ہوئے ان کے سامنے بداخلاق کلمات یا نازک مسائل کے مابین خردمندی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔

والدین سے بھی التماس ہے کہ بچوں کے سامنے بحث و مباحثہ کرنے سے پرہیز کیا جائے تاکہ تلخ و ترش کلمات بچوں کے احساسِ تحفظ پر حملہ آور نہ ہوں۔ ان کو اپنی باتوں میں شامل کریں اور ان کی موجودگی کے وقت انہیں اپنی توجہ کا مرکز بنائیں۔ ایسا نہ کرنے سے بچوں میں احساسِ کمتری اور خوف بیٹھ جاتے ہیں۔ بچپن کا زمانہ ایک نازک مرحلہ ہوتا ہے جس کے دوران لاشعور کی تکمیل ہوتی ہے۔ بچپن کے تجربات زندگی بھر ساتھ رہتے ہیں اورکسی نہ کسی شکل میں بڑوں کی روزمرہ واردات اور حادثات میں روبرو ہوتے رہتے ہیں۔ یہ وقت والدین کے لئے اہم ذمہ داری کا وقت ہوتا ہے۔

چھوٹوں کے علاوہ معمر لوگوں کے لئے تعظیم کے الفاظ استعمال کرنے سے اپنی بات بٹھائی جا سکتی ہے۔ بزرگوں کے پاس زندگی بھر کا خزانہ ہے اورعموماً وہ فراخ دلی سے اپنی تائید و نصرت سے مستفیض ہونے کا موقع بھی دیتے ہیں اور ان کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اس تجربے کا اعتراف ضروری ہے کیونکہ اسلاف کی کاوشوں سے یہ دنیا یہاں تک پہنچی ہے۔ بڑوں سے سیکھ کر اور اپنی شخصیت کو ملا کر اس کارواں کو آگے لے جانا چھوٹوں کا فرض ہے۔

ایک مشہور کہانی کے مطابق ایک بار ایک پادری نے ایک بچے کو ایک چادر میں سفید رنگ کے پر کو یکجا کرنے کو کہا۔ پھر اسے چھت پر چڑھنے کی ہدایت دے کر اس چادر کو نیچے سڑک کی طرف چھوڑنے کو کہا۔ اس طرح کبوتر کے تمام پر چہار جانب یہاں وہاں منتشر ہو گئے۔ پادری نے پھر اس لڑکے کو تاکید کی کہ ان تمام پروں کو پھر پکڑ کر اسی چادر میں سمیٹ لیا جائے۔

لاکھ کوششوں کے بعد بھی تمام پر ہاتھ نہیں آ پائے۔ آخرکار احساسِ شکست خوردگی سے سرشار جب لڑکا پادری کے پاس واپس آیا تو پادری نے اسے سمجھایا ’ہمارے اقوال انہی پروں کی طرح ہیں۔ ہم جو بولتے ہیں ان پر دھیان دینا چاہیے کیونکہ ایک بار الفاظ منہ سے نکل گئے ان کو واپس نہیں لایا جا سکتا۔

غرضیکہ بات کرنا ایک ہنر ہے۔ جس نے اس فن پر مہارت حاصل کی وہ سرفراز ہوا۔