اپنی انا کی خاطر ملکی مفادات کو زک پہنچانے والوں کو قومی بحران معاف نہیں کیا کرتے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ برمی کہاوت شاید تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ہی کہی گئی تھی۔ آج ملک خداداد کو کرونا وائرس کی وبا کا سامنا ہے۔ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر ہیں تو معاشی طور پر ملک بمشکل جو سانس لے پار رہا تھا وہ بھی اب اکھڑتی نظر آرہی ہے ۔ ادھر جناب وزیراعظم ہیں، کہ ان کو اس سوال کا جواب نہیں مل پا رہا کہ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں دیہاڑی دار طبقے تک خوراک کیسے پہنچائی جائے گی؟
اب اس حاکم کا کیا کیجئے کہ جس کی بصارت، اس کی لا محدود انا سے چندھیائی ہو؟ جس کی پنجاب حکومت نے دو کوڑی کے سیاسی فائدہ کے لئے بغض ن لیگ میں پنجاب کے بلدیاتی ادارے قبل از وقت تحلیل کر دیئے ہوں۔ اور آج کرونا جیسے قومی بحران میں گلی محلے کی سطح پر بنے بنائے انتظامی ڈھانچے سے محروم ہو کر کسی مخبوط الحواس شخص کی طرح دیواروں میں ٹکریں مار رہا ہو؟ ایسے حکمران اور ایسی حکومتوں کو کیا کہیئے؟
پنجاب میں 2013 کے بلدیاتی نظام کے قانون کے تحت بننے والا بلدیاتی سیٹ اپ یکم جنوری 2017 میں باقاعدہ فعال ہوا تھا۔ صرف بلدیہ عظمیٰ لاہور ہی کے 319 ممبران تھے۔ جبکہ وارڈ کی سطح تک جاتے جاتے یہ تعداد 3 ہزار کے پاس ہوجاتی۔ اسی طرح صوبے کے 35 دیگر اضلاع میں بھی ڈسٹرکٹ چیئرمین سے لے کر وارڈ سطح تک، ہزاروں منتخب نمائندگان کی فوج ظفر فوج موجود تھی۔ جسے اپنے علاقوں کے ہر گلی کوچے اور وہاں رہنے والوں کی ایک ایک تفصیل سے آگاہی تھی۔ کون کس خاندان سے ہے؟ کس کی کیا صلاحیت ہے؟ ذرائع معاش کیا ہیں؟ کسی بھی قومی آفت کی صورت میں کہاں کیا چاہیے ہوگا ایک سے دو دن میں پورے ملک کے گلی کوچے تک وفاقی یا صوبائی حکومت کی رسائی اور رسد کی مکمل منصوبہ بندی کی صلاحیت اس سیٹ اپ کے پاس موجود تھی۔ اس سیٹ کے ذریعے دوردراز علاقوں میں بنیادی مراکز صحت کو کرونا سے نبٹنے کے لئے کام میں لایا جا سکتا تھا۔
کرونا کے معاملے میں سماجی فاصلے اور گھروں سے بلا وجہ نہ نکلنے کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس پر عملدرآمد میں صوبائی و وفاقی حکومت مکمل طور پر ناکام ہے۔ شہروں میں تو پھر بھی حکومتی رٹ ضلعی افسران کے ذریعے نافذ کرائی جا رہی ہے لیکن شہروں سے نکلتے ہیں پنجاب کے دیہی علاقوں میں یہ رٹ بھاپ بن کر اڑ جاتی ہے۔ بیوروکریسی کے بابو افسران کو کیا پڑی کے دور دراز دیہاتوں میں مارے مارے پھرتے پھریں۔ سو انکی طرف سے 'وٹس ایپ انتظامیہ' چلائی جا رہی ہے اور دیہی پنجاب میں کرونا کے حوالے سے ایک بھی حکم پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ کام بند ہیں اور سکولوں میں چھٹیاں ہیں۔ جس کے باعث بڑے ار بچے سبھی فارغ ہیں۔ ایسے میں مساجد میں اجتماعات پہلے سے زیادہ تعداد کے ساتھ جاری ہیں۔ میلے ٹھیلے لگے ہیں، بازار چل رہے ہیں۔ بچے، نوجوان کھیلوں کے مقابلے کر رہے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اس صورتحال میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دیہی پنجاب کرونا وائرس کے حوالے سے ایک بارود کا ذخیرہ ہے جو کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتا ہے۔ اس سے وہ تباہی پھیلے گی جو چودہویں صدی کے یورپی دیہاتوں میں طاعون سے پھیلنے والی تباہی سے زیادہ ہولناک اور اس سے جنم لینے والے انسانی المیئے سے زیادہ المناک ہوگی۔
تاہم کیا کریں اس تنگ نظری اورسیاسی تربیت کے فقدان کا کہ تحریک انصاف کی بزدار حکومت نے بڑوں کی خوشی مول لینے کی خاطر اس بنے بنائے انتظامی ڈھانچے کو تحلیل کردیا۔ پی ٹی آئی کے نیب زدہ وزیر بلدیات علیم خان کی قیادت میں نیا نظام تشکیل دینے بیٹھے تو وہ سلسلہ بھی شیطان کی آنت ہی بن گیا۔ سر چھپاتے تو پاؤں ننگے اور پاؤں اندر کرتے تو سر۔ وہ قانون تو بن گیا تاہم ابھی تک وہ قانون کی حد تک ہی محدود ہے۔
لیکن اب بھی وقت ہے۔ جو کرونا کی وبا قوم کو درپیش ہے، تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیئے کہ وہ بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابقہ بلدیاتی سیٹ اپ کو بحال کرے۔ تحریک انصاف کی حکومت فوری طور پر ن لیگ کی قیادت سے ملے اور بحال کردہ اس بلدیاتی سیٹ اپ کو فوری طور کرونا سے لڑنے کے لئے استعمال کرنے پر اتفاق رائے قائم کرے۔ موجودہ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس سیٹ اپ کے ذریعے وہ سرعت کے ساتھ گراونڈ لیول پر موجود افراد کے ساتھ رابطے میں آکر لاک ڈاؤن کے دوران ان کی معاشی ابتری کو سنبھال سکتے ہیں۔ یوں کرونا وائرس کے لئے لاک ڈاون جیسے سخت فیصلے جس کی سیاسی قیمت چکانے سے وزیر اعظم عمران خان ہچکچاہٹ کا شکار ہیں وہ لینا آسان ہوجائیں گے بلکہ عمران خان کے پیچھے پوری قوم متحد ہو کر کھڑی ہوگی اور انشا اللہ پاکستان اس مشکل صورتحال سے نکل جائے گا جس کے بعد بطور ایک رہنما ملنے والی عظیم تر حیثیت سے شاید ابھی وزیر اعظم خود بھی آگاہ نہیں۔