کتابیں تھیں جن ہاتھوں میں اب ہتھکڑیاں کیوں ہیں؟

کتابیں تھیں جن ہاتھوں میں اب ہتھکڑیاں کیوں ہیں؟
اس وقت ملک میں کیا چل رہا ہے۔ رات آٹھ بجے کے بعد کن موضوعات پر بحث اور گفتگو کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کا مارچ اور عمران سرکار کے آخری ایام یا امپائر کا نیوٹرل ہونا وغیرہ وغیرہ۔

یقین مانیے بلوچستان میں اب تو عوامی سطح پر، نہ ہی کسی ہوٹل میں ان موضوعات پر گفتگو ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور نہ سوشل میڈیا پر کسی بلوچ دانشور، لکھاری یا طالب علموں کی طرف سے کوئی ٹویٹ، کوئی پوسٹ کوئی تبصرہ۔ بلوچستان دیکھتے ہی دیکھتے کس قدر دور نکلتا جا رہا ہے کہ اب یہاں کسی کو ذرہ برابر بھی ملکی موضوعات پر دلچسپی نہیں رہی۔

حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے اس کے اثرات بلوچستان پر نہ پڑ رہے ہوں۔ بلکہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں سے لے کر خود بلوچستان سے امپائر کی نومولود فرمان بردار حکومتی جماعت بھی میدان میں ہے۔ لیکن ایک بھی احتجاج، جلوس، کوئی ایک تصویر بھی ایسی نہیں کہ جس میں یہ دکھائی دے رہا ہو کہ بلوچستان کے لوگ بھی اس موجودہ ملکی صورت حال میں اسی ملک کا حصہ ہیں۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ اب بلوچستان کے عوام یا تو یہ مان چکے ہیں کہ ملکی معاملات میں ان کے حصے کی کوئی اہمیت نہیں یا پھر یہ لوگ سب کچھ دیکھ کر بالکل اسی طرح خاموش، گونگے اور بہرے بننے کی ایکٹنگ کر رہے ہیں جیسا کہ باقی پاکستان اکثر بلوچستان کے ساتھ کرتا آ رہا ہے۔

یعنی بلوچستان کے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملکی سیاست میں کیا ہو رہا ہے۔ ایمرجنسی لگنے کی باتیں ہو رہی ہی۔ دھمکی آمیز خطوط مل رہے ہیں۔ اسلام آباد ہل رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیا بلوچستان ان حالات میں وہ بدلہ لے رہا ہے جب یہاں سے لوگ اٹھائے جاتے ہیں، مارے جاتے ہیں، احتجاج ہوتے ہیں لیکن انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟

ملکی سیاسی صورت حال میں جہاں جلسے جلوس، پریس کانفرنس، بریکنگ نیوز اور گرما گرم تبصروں کا لگاتار سلسلہ چل رہا ہے، وہیں بلوچستان سے اس وقت صرف ایک ہی تصویر وائرل ہے جس میں ایک ایم فل سکالر، نوجوان طالب علم کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں۔

یہ جبری گمشدگی کا شکار قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ ہیں۔ حفیظ بلوچ کو 30 مارچ کو منظر عام لایا گیا ہے اور ان کے خلاف دہشت گردی کا الزام ہے۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ مخبر خاص کی اطلاع پر انھیں بارودی مواد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

اس ایف آئی آر اور جبری گمشدگی کے بعد کی تصویر میں حفیظ بلوچ کی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں، ان کے بال چھوٹے ہیں، چہرے کا رنگ اترا ہوا ہے لیکن اس سے پہلے کی تصاویر میں ان کے ہاتھوں میں ادب، فلسفہ، تاریخ اور سائنس کی کتابیں ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ ہے اور وہ ایک طالب علم کی طرح دکھتے ہیں۔

کل ہی سوشل میڈیا پر ایک بلوچ استاد کی ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا جس میں وہ شکوہ کر رہے تھے کہ گذشتہ چند سالوں سے بلوچستان میں اداروں کی جانب سے طالب علموں کو تعلیمی دورے کے نام پر لاہور، اسلام آباد اور کراچی وغیرہ کی سیر کرائی جاتی ہے مگر انہی سکول و کالجز میں سے کئی کی عمارات نہیں تو کئی پر بنیادی ضروریات کی چیزیں دستیاب نہیں ہیں۔

اگر وہی پیسے یہاں استعمال کیے جائیں بہتر ہوگا۔ اور یہ طالب علم ان مطالعاتی دوروں کے بعد جب اپنے سکولز اور کالجز میں دوبارہ آتے ہیں۔ بجائے متاثر ہونے کے مایوس ہوتے ہیں کیونکہ ایک طالب علم جس نے میٹرک تک خوردبین نہیں دیکھا، صرف پڑھا ہے وہ ٹینک اور ہوائی جہازوں کو براہ راست دیکھے گا تو مایوس تو ہوگا۔ اگر ان مطالعاتی دوروں کے مقاصد یہ ہیں کہ یہ بچے پنجاب اور اسلام آباد کی بڑی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں سے متاثر ہو کر محنت کریں اور وہاں تک پہنچ جائیں لیکن حفیظ بلوچ کی یہ تصویر اس دورے کے بعد پیدا ہونے والی تمام جذبوں کو خاک میں نہیں ملائے گا جہاں ایک اسکالر کو ایسے پیش کیا جائے۔

ان حالات سے اور ایسے تصاویر سے بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان دوریاں ہی پیدا ہونگی۔ کیونکہ ایسی تبدیلی، جمہوریت یا سرکار کا بلوچستان کیا کرے گا جس میں بلوچ سکالر کی کتابیں اور قلم چھین کر ہتھکڑیاں پہنائی جائیں۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔