انتخابات التوا کیس: فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد، سماعت پیر تک ملتوی

انتخابات التوا کیس: فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد، سماعت پیر تک ملتوی
سپریم کورٹ چیف جسٹس عمر عطا بندیال پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات میں تاخیر کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کیلئے وسائل ہم فراہم کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو مسلح افواج کو بھی بلوا ئیں گے۔

جسٹس امین الدین خان  کی جانب سے کیس کی سماعت کرنے سےمعذرت کے بعد چیف جسٹس  عمر عطا بندیال نے آج  4 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔ عدالت کی جانب سے آج کی کازلسٹ بھی جاری کی گئی تھی۔

کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے ہونا تھی لیکن جسٹس جمال مندوخیل کی معذرت کےبعد بنچ دوسری مرتبہ ٹوٹ گیا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ جسٹس جمال خان مندوخیل کے بغیر کیس کی سماعت جاری رکھے گا۔

تین رکنی بینچ نے انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔

پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔

حسن رضا پاشا نے کہا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں ہے.فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کر لیں.

پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے بینچ سے کہا کہ سیاسی معاملے کی وجہ سے ایک صورتحال پیدا ہو گئی ہے لہٰذا وکلا کو بھی سنا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں۔ اس معاملے پر آپ مجھے چیمبر میں ملیں۔ پہلی بار عدالت آئیں ہیں۔ باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں۔ چیمبر میں آئیں. آپ کا بہتر احترام ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں۔معاملہ صرف بیرونی میج کا ہوتا تو ہماری زندگی پر سکون ہوتی۔ میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں۔ عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہم آئین کے پابند ہیں، ہم لوگ ان میں سے ہیں جن کو گھروں میں نظر بند کیا گیا، ہم صرف آئین پر عملدرآمد کی بات کر رہے ہیں، آئین میں 90 دن میں الیکشن کرانے کی بات موجود ہے۔سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا ۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ توقع ہے پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلو ع ہو گا۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بھی استدعا کی کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اس لیے کیس کو کچھ دیر کے لیے موخر کیا جائے۔ آئندہ 48 گھنٹوں میں شاید صورتحال کچھ بہتری ہو جائے ۔

اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ صورتحال بہتر کرنے کی ضرورت ہے تو کیا اقدامات کیے گئے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اسی لیے وہ مہلت مانگ رہے ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی بھی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات ان کے ذہن میں بھی ہے لیکن کچھ معاملات کو دیکھنا ہے جیسا کہ فل کورٹ کے باعث معمول کے دیگر مقدمات نہ متاثر ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اگر دیگر ججوں کو شامل کر بھی دیں تو ایک موقع پر پوچھا جائے گا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو کیوں شامل کیا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمیں سزا دی گئی۔ ہمارے ساتھی ججز کو سزا دی گئی اور اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔ افواہوں کی بنیاد پر میرے دو ساتھی ججز پر باتیں کی گئیں اور دو سال تک یہ ٹرائل چلتا رہا جس کا ہم نے سامنا کیا۔

انہوں نے کہا کہ میرے بھی احساسات ہیں۔ ہماری بھی فیملیز ہیں۔ یہ باتیں نہ کریں، قانون کی باتیں کریں۔ میرے ساتھی ججز کے بارے میں جو باتیں کی گئیں ان کی بیگمات اور بچوں کے بارے میں کی گئیں۔ ہم بھی انسان ہیں اور حساس انسان ہیں۔ ہم دو سال سے یہ سب برداشت کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت سے انتخابات کی تاریخ لے کر دیں اور حکومت جو بھی تاریخ دے گی۔ اس پر قائم رہنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دی گئی تاریخ سے حکومت کو آگے پیچھے نہیں ہونے دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وسائل نہیں ہیں تو منگوا دیں گے۔ اور مسلح افواج نہیں ہیں تو انہیں بھی بلا لیں گے۔

جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ رولز واضح ہیں 184/3 کے مقدمات 2 سے زائد رکنی بینچ سنے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے فریقین وہ ہیں جو حکومتیں چلاتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے 3 ایشو پر بات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سوموار تک فریقین کو سوچنے کا موقع دیا جائے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2021 کے از خود نوٹس والے عدالتی فیصلے کو پڑھیں۔ فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے۔حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ کتنا سنگین الزام ہے۔ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ  چیف جسٹس بینچ بنانے کے ماسٹر ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کو ذکر کرنے کی نہیں تھی۔ عدالت کے باہر درجہ حرارت بہت زیادہ ہے۔ تمام ججز کے لکھے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز کسی مقابلہ حسن میں نہیں۔ عدالت میں بیٹھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کیلئے وسائل ہم فراہم کریں گے۔ ضرورت پڑی تو آرمڈ فورسز کو بھی بلوائیں گے۔

سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع ، سیکریٹری خزانہ کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی ہے ۔