اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیولیک تحقیقات کے لیے قائم خصوصی انکوائری کمیشن کی جانب سےسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کو خلاف جاری کیے گئےنوٹس معطل کر تے ہوئے کمیشن کو کارروائی سے روک دیا۔
مبینہ آڈیو لیکس کے لیے قائم کمیٹی کیخلاف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی جانب سے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سماعت کی جس میں عدالت نے درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ اور شعیب شاہین عدالت میں پیش ہوئے۔
نجم ثاقب نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ دو مئی کو سپیکر قومی اسمبلی نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کی۔ سپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور آپریشنز معطل کیئے جائیں۔
دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا یہ سپیشل کمیٹی ہے؟ وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ سپیشل کمیٹی کے لیے بھی وہی رولز ہوں گے جو عام کمیٹی کے لیے ہوتے ہیں۔
عدالت نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا کہ آپ کو متعلقہ وزارت کو پارٹی بنانا پڑے گا۔ اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ کوئی متعلقہ وزارت اس معاملے میں ہے ہی نہیں۔ پھر بھی ہم بنا دیں گے۔ ہم نے صرف یہ چیلنج کیا ہے کہ سپیکر اور اسمبلی کوپرائیویٹ معاملہ دیکھنےکا اختیار نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں جو معاملہ زیر التوا ہے ہم نے اس کو چیلنج نہیں کیا۔ آڈیو لیک 2 پرائیویٹ لوگوں کے درمیان مبینہ طور کی گئی بات چیت ہے۔ پارلیمنٹ کو 2 پرائیویٹ لوگوں کے معاملے کو دیکھنے کا اختیار نہیں۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد خصوصی کمیٹی کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کے خلاف کارروائی سے روک دیا اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے نجم ثاقب کی طلبی کا نوٹس بھی معطل کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے حکم امتناع جاری کیا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات بھی دور کر دئیے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو 19 جون کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے لیک ہونے والی آڈیوز ریکارڈ کرنے والوں سے متعلق جواب طلب کر لیا۔