ملک میں جرائم کی لہر معاشی بحران اور مہنگائی سے جڑی ہے

ملک میں جرائم کی لہر معاشی بحران اور مہنگائی سے جڑی ہے
یونان کے عظیم فلسفی ارسطو کا قول ہے غربت جرم اور انقلاب کی ماں ہے۔ اس کا آسان لفظوں میں یہی معنی ہے کہ اگر معاشرہ جاہل ہوگا تو غربت میں جرم کی طرف جائے گا اسی طرح اگر معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ اکثریت میں ہوں گے تو غربت میں یہ انقلاب کی طرف جائے گا۔ اب پاکستانی معاشرے کو دیکھا جائے تو ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ دعوی کرسکے کہ ہم تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں اس لئے اگر ہمارے ہاں غربت بڑھے گی تو معاشرے کا رجحان جرم کہ طرف ہوگا۔

یہی تو حقیقت ہے جب سے موجودہ مہنگائی کی لہر آئی ہے اور ملک میں معاشی بحران ہے تب سے آئے روز ہمارے اردگرد موبائل سنیچنگ اور گن پوائنٹ پر لوٹ مار کے واقعات ہورہے ہیں۔ آئے روز سوشل میڈیا کو دیکھتے ہیں تو یہی سب تو دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آج کا تازہ واقع ہے میرے شہر میں ایک ڈاکو کو پیسوں کے لوٹنے کی وجہ سے پولیس نے گولی ماری جس سے وہ جاں بحق ہوگیا۔ مجھے اس قسم کے ڈاکوؤں اور لٹیروں سے نفرت سے زیادہ ہمدردی ہے کون پاگل ہوگا جو چند پیسوں کے لئے اپنی جان دے گا؟ ظاہر ہے اس کے بچے اور گھر والے بھوکے ہوں گے تب ہی تو وہ موت اور جرم کے راستے پر چل پڑا۔ میرے پاس کئی ایسے دلائل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ عادی لٹیرے نہیں تھے بلکہ مجبوری کے تحت اس راستے پر چل پڑے تھے۔

اس ملک میں عام آدمی کے لئے ہے ہی کیا؟ آٹے کے لائنز میں دھکے کھانے کے علاوہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کم از کم میں نے اپنے اس عمر میں اب تک ایسے برے حالات اور عدم تحفظ کا ماحول نہیں دیکھا تھا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ موجودہ جرائم کی لہر کسی نہ کسی طرح ملک کے معاشی بحران اور مہنگائی سے جڑی ہے۔

ہم پاکستانیوں کا ایک مزاج ہے جو مجھے بالکل پسند نہیں کہ ہم ہر برائی کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہیں اور یوں خود کو بری الذمہ کردیتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے آس پاس اپنے محلے میں کسی کا حال پوچھا ہے کہ انہوں نے آج کھانا کھایا ہے یا نہیں۔ کتنا کھانا روز ہمارے گھروں میں ضائع ہوتا ہے۔ ہم نے بحیثیت انسان یہ سوچا ہے کہ ہم اتنا کھانا کیوں ضائع کررہے ہیں؟ کیوں نہ ہم یہ کھانا ان لوگوں کو دے دیں جو بھوکے ہوں۔اگر وہ پیٹ بھر کر کھائیں تو اس میں تو ہمارا بھی فائدہ ہے۔ ہم کم ازکم عدم تحفظ کے شکار تو نہیں ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  تھا کہ ”جب تم سالن پکاؤ تو اس میں شوربا بڑھا لو، اور اس میں سے ایک ایک چمچہ پڑوسیوں کو بھجوا دو“۔ مطلب اسلام بھی یہی انسانیت کا درس دیتا ہے کہ آپ اپنے آس پاس لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کریں۔

میں مانتا ہوں یہ ریاست اپنے شہریوں کے کھانے پینے کی ضروریات سمیت بنیادی ضروریات کا خیال رکھنے اور ان کو روزگار دینےکی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن اب اگر ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے اور اس پر حکومت کرنے والے لوٹ مار میں مصروف اور بے حس ہوں تو ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا چاہیے؟

میرے خیال میں بحیثیت مسلمان اور انسان ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے آس پاس دیکھیں کہ کوئی بھوکا تو نہیں اور اگر ہے تو ہم اپنی بساط کی مطابق ان کا خیال رکھیں۔ اگر ہم بہتری لانا چاہتے ہیں تو ہمیں آغاز اپنے آپ سے کرنا ہوگا نہیں تو اس عدم تحفظ اور غیر یقینی صورتحال میں ہمیں اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر دراصل ہم اپنے ہی معاشرے کو غیر محفوظ اور غیر انسانی بنا رہے ہیں جو کہ تباہی کا راستہ ہے اور کوئی بھی باشعور انسان تباہی کہ راستے پر نہیں بلکہ تعمیر کے راستے پر جاتا ہے۔