مزید کتنی کمسن بچیوں کو جبری تبدیلی مذہب اور کم عمری کی شادی کا سامنا کرنا ہے؟

مزید کتنی کمسن بچیوں کو جبری تبدیلی مذہب اور کم عمری کی شادی کا سامنا کرنا ہے؟
تیسری عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ایک دفعہ پھرمتعدد اجلاسوں میں جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے حوالے سے بھرپور بات ہوئی۔ جبری تبدیلی مذہب ایک بڑا مسئلہ ہے اورمذہبی اقلیتیں اس کی اذیت روزسہتی ہیں۔ بلکہ یہ اذیت ملک کےہر ذی شعورشہری کی ہے جو مظلوموں کے لئے ہمدردی اور مُلکی ساکھ کے لئے فکر و احساس رکھتے ہیں۔ اتنے سنجیدہ معاملے پر قانون سازی میں رخنہ اندازی سمجھ سے بالا ہے۔ حالانکہ قانون سازی ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے جس کی ضرورت دن بدن بڑھ رہی ہے لیکن سیاسی حلقے اس پر کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔

13اکتوبرکوخصوصی پارلیمانی کمیٹی جو2019میں وزیرِاعظم عمران خان نے قائم کی تھی اور جس کا مقصد ہی مذہبی اقلیتوں کوجبری تبدیلی مذہب سے تحفظ فراہم کرنا تھا کے بارھویں اجلاس میں چئیرپرسن سینٹرلیاقت خان ترکئی نے یکطرفہ طور پر اعلان کر دیا کہ جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کا ڈرافٹ بل مستردکیا جاتا ہے۔ بل پر نہ تو ووٹنگ ہوئی اور نہ اس کی حمایت کرنے والوں کا نکتہء نظرسنا گیا۔

اس سے پیشتر23 ستمبر2021کو وزارتِ مذہبی اُموروبین الامذاہب ہم آہنگی نے وزارتِ انسانی حقوق کے تیار کردہ اس ڈرافٹ بل پر اعتراضات لگا دئیے۔ وفاقی وزیرمذہبی اُمور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ اُن کی وزارت کو 18سال عمر،جج کے سامنے گواہی اورسوچ بچار کے لئے90دن کا وقت دینے کی شرائط پراعتراض ہے۔ وزارتِ انسانی حقوق نے یہ ڈرافٹ بل خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پرمرتب کیا تھا۔ جولائی میں وزارتِ مذہبی اُمورنے اصرار کیا کہ وزارتِ انسانی حقوق یہ ڈرافٹ انھیں بھیجے تاکہ قادری صاحب کی وزارت اس پراپنی رائے دے سکےحالانکہ وزارتِ مذہبی اُمور خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا بھی حصہ تھی اور وہ کمیٹی کی پچھلی میٹنگزمیں اپنی رائے دے چُکے تھے۔ تو سوال اُٹھتا ہے کہ دوبارہ ڈرافٹ کیوں مانگا گیا؟

حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے،کمیٹی کے ایک رکن لال چند ملہی نے ٹویٹ کیا، ”بدنام زمانہ میاں مٹھو سے گفتگو کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارتِ مذہبی اُمورنے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے بل پراعتراض کیا ہے“۔

میاں مٹھو سندھ میں نوعُمرہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اورزبردستی شادیاں کروانے کے لئے مشہور ہ ے۔تحریکِ انصاف کے بعض حلقےاس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے اُسے اس معاملے میں ملوّث ہونے کی وجہ سے پارٹی سے نکالا۔ 2016میں جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تواُنھوں نے عُمرکوٹ،سندھ میں اپنی ایک تقریر میں واضح طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب کی مذمت کی۔ اُنھوں نے کہا”مجھے یہ اتنا افسوس ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سندھ میں ہندو بچیوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں وہ شرمناک ہے۔ یہ اُنھیں جبری طور پر اسلام قبول کروا رہے ہیں۔ پتہ نہیں یہ کون سا ثواب حاصل کررہے ہیں۔ انھیں نہیں پتہ جب یہ زبردستی لڑکیوں کواسلام قبول کرواتے ہیں تو یہ قرآن کے خلاف جاتے ہیں۔ ہندوسندھ سے ہندوستان جا رہے ہیں"۔ لال چند ملہی نے اس ویڈیو کلپ کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ”جبری تبدیلی مذہب کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں کسی سند کی ضرورت نہیں جب میرے قائد نے اس کی واضح مذمت کی ہے"۔

علاوہ ازیں،وزارتِ مذہبی اُمور وبین الامذاہب ہم آہنگی صرف اسلامی امور کی وزارت نہیں ہے، یہ ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی بھی وزارت ہے مگراس نے اپنے جائزے میں کسی اقلیتی نمائندے سے رجوع نہیں کیاجبکہ معاملہ خاص اقلیتوں سے متعلق ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قومی کمیشن برائے اقلیت کےارکان اوراس کے سربراہ چیلارام کو بھی مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ مگر کمیشن کے ایک مسلمان رُکن مفتی گلزار نعیمی جو اپنے شدید خیالات کے لئے مشہور ہے، اسے شامل کیا گیا۔

وزارتِ مذہبی اُمور نے ڈرافٹ بل پر مندرجہ ذیل اعتراضات اُٹھائے؛

اول:
یہ ڈرافٹ بل میں لکھا ہے کوئی غیر مسلم جو بچہ نہیں ہے اور ایک دوسرا مذہب اپنانے کے قابل اور اس کے لئے رضامند ہے اُسے علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے درخواست جمع کروانی ہوگی۔ درخواست میں اس کا نام،عمر،جنس،شناختی کارڈ نمبر، والدین، بہن بھائیوں، بچوں اور شریکِ حیات(اگرہو)کی تفصیل؛ موجودہ مذہب اورمذہب تبدیل کرنے کی وجہ درج کرنا ہوگی؛

دوم:
درخواست وصول ہو نے کے سات دن کے اندر جج کو درخواست دہندہ کا انٹرویو کرنے کے لئے تاریخ مقرر کرنا ہوگی۔ انٹرویو والے دن جج کو یہ اطمینان کرنا ہو گا کہ تبدیلی مذہب کسی جبر،دھوکہ دہی یا غلط بیانی کے زیرِاثر تو نہیں ہو رہی؛

سوم :
جج غیرمسلم شخص کو90 دن کا وقت دے سکتا ہے جس میں وہ مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرے۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد جج تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

بادی النظر میں مندرجہ بالا اقدامات پراعتراض صرف اقلیتوں سے نفرت کا اظہاراور ناپسندیدگی ہے۔ اسی لئے ادارہ برائے سماجی انصاف کے چیئرپرسن وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ ”وزارتِ مذہبی اُمورکا موقف بظاہرغلط فہمی یا مغالطوں پر مبنی ہے۔ ورنہ متعلقین اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے تیار کردہ مسودہ بل عام شہریوں کی مذہبی آزادی کو مجروح کرنے کی بجائے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچیوں کے جبری تبدیلئی مذہب کو روکنے کی کوشش ہے۔ یہ مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ انصاف اور حقوق کا معاملہ ہے۔ وزارتِ مذہبی اُمورکواقلیتوں کے خلاف جبری تبدیلی مذہب جیسے بدترین جرائم سے تحفّظ کے لئے حق کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ تاریخ میں اسے اچھے لفظوں میں یاد کیاجائے “۔ پیپلز کمیشن فار میناریٹیزرائٹس کے چیئرپرسن پیٹر جیکب نے کہا ہے کہ ”اقلیتیں برسوں سے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہی ہیں،جومذہب کو جرائم پرپردہ پوشی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت اقلیتوں کے تحفّظ کے لئے اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے اس لاقانونیت کو روکے"۔

جبری تبدیلی مذہب پرتشویش اس خطے کے لئے نیارحجان نہیں ہے۔ اس مسئلے کوحل کرنے لئے آل انڈیا مسلم لیگ نے دسمبر1927 میں کلکتہ میں ایک قرارداد پاس کی۔ تاریخ دان غلام علی الانا کی کتاب ’پاکستان موومنٹ:ہسٹارک ڈاکومنٹس‘ کے مطابق مسلم لیگ نے مطالبہ کیاتھاکہ،”ہر فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل یا دعوت کے ذریعے کسی دوسرے کو اپنے مذہب کی طرف تبدیل یا دوبارہ تبدیل کرنے پر راغب کرے۔ لیکن کسی فرد یا گروہ کوطاقت، دھوکہ دہی یا دیگرغیرمنصفانہ ترغیبات سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ نیزاٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا مذہب اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے جب تک ان کے والدین یا سرپرست مذہب تبدیل نہ کریں۔ اگراٹھارہ سال سے کم عمرکوئی فرداپنے والدین یا سر پرست کے بغیردوسرے عقیدے کے لوگوں میں گھرا پایا جائے تو اسےفوراً اس کے اپنے عقیدے کے لوگوں کے حوالے کرنا چاہیے“۔ پس تقریباًایک صدی پہلے مسلم لیگ نےتبدیلی مذہب کے لئے اصول واضح کئے۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی اور وزارتِ مذہبی اُمور کو تاریخ سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔

مزید برآں پاکستان کے آئین کا آرٹیکل20 تمام شہریوں کو اپنے مذہب کو ماننے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کا پر چار کرنے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں مذہب اور عقیدے میں تبدیلی کی آزادی بھی شامل ہے مگروہ کسی جبر یا غلط ترغیبات کے نتیجے میں نہ ہو۔ پاکستان 1948سے اقوامِ متحدہ کا رُکن ملک ہے،انسانی حقوق کے عالمی منشور کا آرٹیکل 18بھی مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اوراسےآزاد مرضی سے بدلا بھی جا سکتا ہے جبکہ کوئی مجبوری نہ ہو۔ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کا آرٹیکل(4) 18اور حقوقِ اطفال کے بین الاقوامی میثاق کا آرٹیکل(2)14 بچوں کے مذہب کے انتخاب کا حق والدین کو دیتا ہے جب تک وہ اٹھارہ سال کے نہ ہو جائیں۔ پاکستان ان دونوں معاہدوں کی تصدیق کر چکا ہے۔ لہذا ڈرافٹ بل کی تصدیق جوڈیشل فورم سے کروا کر عالمی معیارات کے مطابق ہونے کی تجویز دے رہا ہے۔(sui Juris)بچے کے میچور ڈرافٹ بل کے مطابق جب بچے کے والدین یا سرپرست خاندان سمیت مذہب تبدیل کریں توایک بچے کا مذہب تبدیل ہوسکتا ہے۔

تعزیرات ِپاکستان کے سیکشن498(ب) کے مطابق جبری شادیوں کی ممانعت کرتے ہوئے،غیرمسلم عورت اورکمسن بچی سے شادی کی کم ازکم سزا پانچ سال قید اورجرمانہ ہے۔ تاہم جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے مخصوص قانون سازی کی پہلے بھی مخالفت کی گئی ہے۔ دو بل بالترتیب 2016اور2019 میں پیش کئے گئے لیکن وہ انھیں افراد اور گروہوں کی وجہ سے واپس ہو گئے جو آجکل پھر سر گرم عمل ہیں۔ پچھلے سال ستمبر میں مذہبی اُمور وبین الامذاہب ہم آہنگی کی سٹینڈنگ کمیٹی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل2020 رد کر دیاجس میں جبری تبدیلیٗ مذہب کا موضوع بھی شامل تھا۔ ان تمام بلوں میں تبدیلیٗ مذہب کے لئے اٹھارہ سال عمر،تبدیلی کے لئے باقاعدہ طریقہ کا رطے کرنے اور زبردستی کرنے والوں کے لئے سزاکی سفارشات تھیں۔

حالیہ سالوں میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی رپورٹنگ مسلسل ہو رہی ہے لیکن حکومتوں کا تسلی بخش جواب سامنے نہیں آرہا جس کی بڑی وجہ وزارتوں کے آپس میں اتفاق کا فقدان، اور مذہبی رہنماؤں اور گروہوں کی بلاوجہ مداخلت ہے۔ قوم کے سامنے یہ سوال ہیں؛ کہ قانون سازوں کوجبری تبدیلی مذہب کی تعریف کرنے کے لئے اور کیا درکار ہے؟ مزید کتنی کمسن بچیوں کو اغواء اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا ہے؟کیا تبدیلی مذہب کی چھتری تلے ریپ قابلِ قبول ہے؟بچیوں کی عمر کی آزادانہ تصدیق کب ممکن ہو گی؟پسماندہ طبقات کے انسانی حقوق کی مزید کتنی پامالی ہو گی؟ اعدادوشمارسے پتہ چلتا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کے ساتھ متعدد دیگر جرائم مثلاہراسانی،اغواء،جبری شادی،کمسنی کی شادی،ریپ،گینگ ریپ، جبری جسم فروشی اور طاقت کا بے جا استعمال جُڑے ہوئے ہیں۔

اقلیتی بچیوں کو بلا خوف ِسز ا، اغواء کر کے،زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور غیر قانونی طور پر بچی سے کئی گنا بڑی عمر کے مسلمان مرد سے شادی کروائی جاتی ہے اس میں کئی عوامل شامل ہیں جن کا تعلق ہمارے نظامِ انصاف کے اندر پائے جانے والے بگاڑ سے ہے۔ پولیس اور جیوڈیشل افسران کی غفلت، پیچیدہ بلکہ ملزم کے ساتھ معاندانہ رویے متاثرہ پارٹی کوبڑی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں اور کیس کو رپورٹ کرنے سے حد درجہ گریزاں ہوتے ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب کی روش نے امتیازی قوانین اور معاشرتی تعصبات کے ساتھ مل کر مذہبی اقلیتوں کی زندگی کو اجیرن بنارکھا ہے۔

بلاشُبہ،جبری تبدیلی مذہب انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی جبری تبدیلی مذہب کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے حکومت اس پر قانون بنانے کے اپنے وعدے کا اعادہ کرتی ہے مگر پھر کچھ عناصر کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری سے گریز کر جاتی ہیں۔

اب جبکہ وزارتِ انسانی حقوق نے انسانی حقوق کی اس پامالی کو روکنے کے لئے ایک اچھا بل ڈرافٹ کیا ہے، تمام فریقین کو اسے پاس کرنے میں تعاون کرنا چاہیے۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال کے مطابق ”وزارتِ انسانی حقوق کاطویل پارلیمانی عمل کے ذریعے تیار کردہ بل بے جان نہیں ہوا۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں جو کچھ ہوا ہے، یہ بل کا مسترد ہونا نہیں بلکہ اس پر غور نہ کرنا ہے۔ پس تکنیکی طور پر یہی کمیٹی یا کوئی اور پارلیمانی فورم اس بل کو لے کر اس پرقانون سازی کا کام آگے بڑھا سکتے ہیں۔“ لہٰذا حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کو مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے مضبوط قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔اس سے پاکستان کا وقار اپنے شہریوں کی نظر میں بھی بلند ہو گا اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔

نبیلہ فیروز انسانی حقوق کی کارکن اور فری لانس اخبار نویس ہیں۔ مصنفہ انگریزی اور اردو اخبارات میں لکھتی ہیں۔ ٹوئٹر پر انکا اکاؤنٹ NabilaFBhatti کے نام سے ہے۔  ان سے Nabila_Feroz@hotmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔