طاقت کے مرکز کی انا پرستی کے باعث ڈھاکہ ہم سے الگ ہوگیا

طاقت کے مرکز کی انا پرستی کے باعث ڈھاکہ ہم سے الگ ہوگیا
پاکستان کی قومی اور سیاسی تاریخ میں 16 دسمبر کا دن ایک قومی سانحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن پاکستان کی فوج نے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جس سے پاکستان کا مشرقی حصہ ایک الگ اور آزاد ملک بن کر پاکستان سے الگ ہو گیا۔ پاکستان کے عوام آج تک سقوط ڈھاکہ کے اسباب اور محرکات جاننے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں مذہب اور سیاست دونوں میں پراپیگنڈے کا بازار ہمیشہ سے گرم رہا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں پر حقائق اور سچ سے کسی کو کوئی دلچسی نہیں ہے۔ مشرقی ہاکستان کا سانحہ بھی اسی پراپیگنڈے والے مائنڈ سیٹ کا نتیجہ تھا جس نے بنگالیوں کے بارے میں مغربی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں نفرت، تعصب اور شک کے بیج بوئے تھے اور اسی پراپیگنڈے کی بدولت پاکستان کے عوام اس بڑے قومی سانحے کی وجوہات بھی نہ جان سکے۔

تاریخ انسانی کے مطالعے سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ بڑے سانحے کبھی بھی حادثاتی طور پر اور اچانک رونما نہیں ہوتے بلکہ ان کے اسباب کی مسلسل آبیاری کی جاتی ہے جس کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں پر سانحہ کا وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سوانح کے وقوع پذیرہوتے وقت صاحب اقتدار اور ذمہ دار افراد بھی ایسے واقعات کی وجہ بنتے ہیں مگر صرف وہی افراد وجہ نہیں ہوتے ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام افراد جنہوں نے ماضی میں اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے اس طرح کے اسباب پیدا کیے ہوتے ہیں، وہ افراد بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کی کہانی 1947 سے شروع ہوئی تھی، 50 اور 60 کی دہائی میں پروان چڑھی اور 71 میں اس کہانی کا اختتام ہوا۔ یہ ظلم، زیادتیوں، محرومیوں اور نادانیوں کی طویل داستان ہے۔

سانحہ مشرقی پاکستان پہ 'مٹی پاؤ' کی پالیسی کی پہلی دلیل یہ ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کی جغرافیائی اور جیو پولیٹیکل حیثیت ایسی تھی کہ اس کا مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا ممکن نہیں تھا۔ ملک کے دو حصوں کا جغرافیائی طور پر الگ ہونا ایک منفرد بات ہے مگر پاکستان کا بننا اور اس کے وجود کا برقرار رہنا بھی اپنے حساب سے ایک منفرد بات ہے۔ بھارت جیسے طاقتور دشمن کے ساتھ دشمنی پال کر اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا بھی ایک منفرد بات ہے۔ کشمیر جیسے سٹریٹیجک اہمیت کے حامل علاقے پہ حکمرانی کا دعویٰ کرنا بھی ایک منفرد بات ہے۔ اقتصادی اور معاشرتی طور پر کمزور ملک ہونے کے باوجود عالم اسلام کا مرکز اور قلعہ ہونے کا دعویٰ بھی منفرد بات ہے۔

جب کوئی ریاست دفاعی اور جنگی حساب سے نسبتاً کمزور ہو تو اس کو روایتی اعتبار سے ہٹ کر اپنے دفاع کو مضبوط بنانا پڑتا ہے۔ جنگ میں غیر روایتی طریقہ کار کو Asymmetric-Warfare کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان انڈیا کے ساتھ اس طریقہ کار کو اپنا کر ہی محفوظ ہے۔ اس حساب سے مشرقی پاکستان کا ساتھ رہنا پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ پاکستان نے انڈیا کو دونوں طرف سے گھیرا ہوا تھا جو کہ دفاعی اعتبار سے ایک غیر معمولی بات ہے۔ یہ حقیقت پاکستان سے زیادہ ہندوستان پر آشکار تھی کہ اس نے اپنی ساری توانائیاں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے پر لگا دیں اور نادان قوم کے افسران ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان سے جان چھڑوانے پر جشن منا رہے تھے۔

پاکستان میں 1947 سے عوام، جمہوریت اور اداروں کی بجائے ایک انتہا پسند مرکز حکومت کر رہا ہے۔ یہ انتہا پسند مرکز ملک توڑ ڈالے گا، اپنے وفادار لوگوں کو پھانسیوں پہ چڑھا دے گا، محب وطن پاکستانیوں کو غدار بنا ڈالے گا اور اپنا حق مانگنے والوں کو باغی، شدت پسند اور علیحدگی پسند بنا ڈالے گا مگر کبھی بھی اپنی طاقت کو اس کے اصل حق داروں کو نہیں دے گا۔ جب بھی ملک کی کوئی اکائی آئین اور قانون کے حساب سے اپنا جمہوری حق مانگتی ہے تو اس کو اپنی طاقت کے کھو جانے کے لالے پڑ جاتے ہیں جس کو نتیجتاً قومی سلامتی کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے اور طاقت کا بھر پور استعمال کر کے حالات کسی قومی سانحہ کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ اس شدت پسند اور قدامت پرست مرکز میں کوئی ایک ادارہ شامل نہیں ہے بلکہ یہ 'سٹیٹس کو' کا ایک منظم گروہ ہے جس کی خوراک طاقت ہے اور اسے حاصل کرنے کا ذریعہ عوام اور کمزور طبقات ہیں۔

اس منظم گروہ میں بے شمار مزید گٹھ جوڑ ہیں جن میں جنرل، مولوی، گدی نشین، جاگیردار اور سیاست دان نما تاجراور بیوروکریٹ پائے جاتے ہیں۔ اسی طبقے کی سفاکیت کا نشانہ پاکستان کے مشرقی پاکستان کے عوام بنے۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جب ایک بلی مجبور اور بے بس ہو جاتی ہے تو وہ ایک شیر پر بھی حملہ کر دیتی ہے۔ قومیت، رنگ اور کلچر پہ مذاق بننے والے اور مظالم اور زیادتیوں کا نشانہ بننے والے بنگالیوں نے بے بس ہو کر 'ٹائیگرنیازی' اور اس کی فورس پر حملہ کر دیا جس کے بعد یہ حالت تھی کہ وہ اس بات پر بے حد ممنون اور خوش تھا کہ اس کو بنگالیوں کی بجائے ہندوستانی فوج کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑ رہے ہیں۔ مغربی پاکستان کے لوگوں میں یہ اس جھوٹ کی Programming کرنے والا بھی یہ مانئڈ سیٹ ہی تھا کہ اچھا ہوا بنگالیوں سے جان چھوٹ گئی۔

یہ خود غرض مرکز قیام پاکستان سے ہی ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے۔ وہ خوف طاقت کے چھن جانے کا ہے۔ اس نے ہمیشہ سے اپنے راستے میں آنے والی ہر اس طاقت کو کچل کے رکھ دیا جس کی بدولت ان کی 'طاقت' میں کوئی کمی آئے۔ بنگالی ان کے حساب سے غیر مہذب اور ان کلچرڈ ضرور ہوں گے مگر وہ سیاسی شعور کے حساب سے انتہائی بیدارقوم تھی۔ طاقت کا مرکز کسی گروہ، طبقے اور نظریے سے خوف زدہ نہیں ہوتا بلکہ ان کو خوف صرف سیاسی شعور اور ذہنی بیداری سے ہوتا ہے۔ اس طبقے کو بنگالیوں سے یہی خوف تھا کہ اگر ان کے پاس حکومت آ گئی یعنی کہیں پاکستان میں 'واقعی جمہوریت' آ گئی اور عوام طاقت کا سر چشمہ بن گئے تو ان کی اپنی طاقت ختم ہو جائے گی۔

تاریخ انسانی میں طاقت کے سفاک مراکز نے ہمیشہ انسانوں کو آگاہی سے دور رکھا اور پراپیگنڈے کے ذریعے سے ان پر ناخدائی کرتے رہے۔ اسی طرح سفاک جاگیرداروں اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں نے سکولوں کے بننے میں مزاحمت کی کہ کہیں ان کا اقتدار اور طاقت نہ چھن جائے۔ اگر کوئی محب وطن پاکستانی سقوط ڈھاکہ کے اسباب جاننا چاہتا ہے تو وہ خواجہ ناظم الدین سے شروع ہو کر، محمد علی بوگرا سے حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی سے فاطمہ جناح اور پھر مجیب الرحمن سے ہوتے ہوئے ایوب خان اور یحییٰ خان تک پہنچے، اس کو پتہ چل جائے گا کہ ڈھاکہ کیوں نہ رہا۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔