وہ ایک سو گھنٹے جس میں خطے کی تاریخ قلم بند ہوئی!!

وہ ایک سو گھنٹے جس میں خطے کی تاریخ قلم بند ہوئی!!
وہ ایک سو گھنٹوں کی ریکارڈنگ، جس میں محمد موسیٰ جوکھیو نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا۔ اب کتاب کی صورت میں تبدیل ہو چکی ہے، ان 100 گھنٹوں میں آٹھ دہائیوں کا طویل تذکرہ تھا، واقعات تھے، درد اور قہقہے بھی، ملک کا بننا، ٹوٹنا اور بے سمت ہونا، استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہدوں کی ان گنت کہانیاں، پھر ان سب کو چھاننا اور ترتیب دینا کسی بھی بڑے چیلنج سے کم نہ تھا، لیکن جب کام سے عشق ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے، اور تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا۔

یہ لگ بھگ 50ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ ان دنوں بھارتی صوبہ گجرات کے علاقے کچھ سے تین گویے بھائی استاد مٹھو کچھی، عثمان کچھی اور ہاشم کچھی رن آف کچھ کا مشکل ترین سفر اونٹوں پر طے کرکے اپنے اہلخانہ کے ساتھ  زیریں سندھ کے علاقے بدین منتقل ہوئے۔ ان دنوں محمد قابل جوکھیو کا اپنا گاؤں بدین سے چار کلومیٹر قریب تھا۔ کچھی گویہ خاندان، قابل جوکھیو سے تعلق داری کے باعث ان ہی کے گاؤں میں سکونت پذیر ہوا۔ گائیکی کا کام شروع کیا، لیکن جہاں جاتے ان سے سامعین ایک ہی فرمائش کرتے کہ مولوی صاحب کا کلام سنائیں۔

مولوی حاجی احمد ملاح، یہ وہی شاعر ہیں جنہوں نے سندھی زبان میں پہلی بار قران پاک کا ترجمہ کیا۔ مولوی صاحب بدین کی سیاسی اور مذہبی شخصیت تھے۔ ان کا اثرورسوخ بھی کافی تھا۔ وہابی مسلک کے باعث وہ ساز و سرود کے بھی مخالف تھے۔ کچھی برادران کو معلوم تھا کہ اگر انہوں نے مولوی صاحب کی شاعری کو گایا تو وہ ناراض ہونگے لیکن سامعین کا روز بروز بڑھتا اصرار دباؤ کی صورت اختیار کر چکا تھا۔

ایک دن کچھی گویوں نے محمد قابل جوکھیو سے کہا کہ مولوی صاحب کے کلام کی فرمائشیں بڑھتی جا رہی ہیں، آپ ہمیں مولوی صاحب سے اجازت لے کر دیں تاکہ ہم ان کے کلام کی دھنیں بنا کر گا سکیں۔

محمد قابل جوکھیو جن کے مولوی صاحب کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات تھے، انہوں نے مولوی صاحب سے پوچھے بغیر کچھی برادران کو اجازت دے دی اور کہا کہ اگر کوئی اعتراض آیا تو وہ خود اس کو دیکھ لیں گے۔

محمد قابل جوکھیو کی اجازت کے بعد کچھی برادران نے مولوی حاجی احمد ملاح کا سندھی کلام

”ھِي مُنارا ھُو منارا ھِي مُنارا مير جا

اڄ ڪيا اوٺين اشارا ھو مُنارا مير جا“

ترجمہ: یہ مینار وہ مینار، وہ مینار میر کے

آج کیئے ساربان نے اشارے، وہ مینار میر کے

اس کلام کی دھن قوالی کی طرز پر بنائی گئی۔ تینوں بھائی کورس کے انداز میں گاتے تھے۔ مولوی صاحب کا پہلا ہی یہ کلام ہٹ ہوا اور تینوں گویے بھائیوں کو لاڑ(زیریں سندھ) میں شہرت کی بلندیوں تک لے گیا۔

جہاں جاتے یہ ہی کلام گاتے، نوٹوں کی بارش ہوتی، ان کی مالی حالت بھی بہتر ہونے لگی تو دوسری جانب جب اس کلام کا چرچہ مولوی صاحب تک پہنچا تو انہیں بھی اشتیاق ہوا کہ وہ اپنی شاعری کو گویوں کی زبانی خود اپنے سامنے سنیں، لیکن انہیں خوف یہ تھا کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے سنیں گے تو ان کی مذہبی حیثیت کو دھچکا لگے گا۔

مولوی حاجی احمد ملاح نے محمد قابل جوکھیو سے ایک دن کہا کہ سنا ہے کہ تمہارے گاؤں میں جو کچھی گویے رہتے ہیں وہ میری شاعری گاتے ہیں۔ جس پر قابل جوکھیو نے تمام روداد سنائی اور کہا کہ میں نے ہی انہیں اجازت دی ہے، جس پر مولوی صاحب نے کہا کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کرو کہ میں ان کی گائیکی روبرو بھی  سنوں اور کسی بنی بشر کو پتا بھینہ چلے۔

اس واقعے کے عینی گواہ اور محمد قابل جوکھیو کے بڑے بیٹے محمد موسیٰ جوکھیو اپنی آٹو بائیوگرافی میں رقم طراز ہیں کہ "ہمارے گاؤں میں ہماری ایک اوطاق (مہمان خانہ) خاص آدمیوں کیلئے ہوا کرتی تھی، جو عام اوطاق سے تھوڑے فاصلے پر تھی۔ ان دنوں بیل گاڑیوں کی سواری ہوا کرتی تھی، وہ بیل گاڑیاں جن کے اوپر کپڑا ڈھانپ دیا جائے تو سمجھا جاتا تھا کہ اس میں خواتین سوار ہیں۔ محمد قابل جوکھیو نے مولوی صاحب کو کہا کہ وہ رات کو ان کیلئے کپڑے سے ڈھکی ایک بیل گاڑی بھیجیں گے۔ وہ اس میں سوار ہو کر اوطاق پر پہنچ جائیں، کوئی عام آدمی اس اوطاق کی طرف نہیں جاتا"۔

مولوی صاحب حسب پروگرام کپڑے سے ڈھکی بیل گاڑی پر سوار ہو کر اوطاق پر پہنچے۔ ان دنوں بجلی تو ہوتی نہیں تھی۔ لالٹین سے ہلکی روشنی کا اہتمام تھا۔ قابل جوکھیو نے مولوی صاحب کی تواضح کیلئے محمد موسیٰ کی ڈیوٹی لگائی۔

عام اوطاق کے سامنے کھلے میدان میں اس رات کچھی برادران نے جب مولوی صاحب کا کلام گایا تو مولوی صاحب پر وجد طاری ہوگیا۔ پہلی بار اپنی شاعری گلوکاروں کے منہ سے سن کر خوشی بیان کرنا ان کیلئے مشکل تھا، مولوی صاحب نے قابل جوکھیو کو کہا کہ کچھی برادران کو میرے پاس بلاؤ، اور اس طرح بلاؤ تاکہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔

قابل جوکھیو نے محفل موسیقی کے وقفے کے دوران اپنے بیٹے محمد موسیٰ کو بھیجا کہ وہ کچھی برادران کو لے آئے لیکن انہیں اس بات کی بھنک نہ پڑے کہ ان کو کس نے بلایا ہے؟ ان دنوں محمد موسیٰ کی عمر چودہ پندرہ برس ہوگی۔

ہدایات کے تحت ایسا ہی ہوا، جب کچھی برادران خاص اوطاق میں داخل ہوئے اور چارپائی پر بیٹھے مولوی حاجی احمد ملاح پر ان کی نظر پڑی تو تینوں بھائی زمین پر بیٹھ گئے اور مولوی صاحب کے پاؤں پکڑ لئے اور کہا مولوی صاحب ، ہمیں معاف کریں، ہم نے آپ کی چوری کی ہے، مولوی صاحب نے کہا کہ "میں نے پوری زندگی لوگوں کو پیروں اور امیروں کے سامنے زمین پر بیٹھنے اور ہاتھ جوڑنے کے خلاف تبلیغ کی ہے، لوگ تو سارے ایک جیسے ہوتے ہیں، کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ آپ یہ کیا کر رہے ہو؟

"ہم آپ کے مجرم ہیں، اگر ہماری چوری پکڑی جائے تو ظاہر ہے کہ معافی ہی مانگیں گے" استاد مٹھو کچھی نے مولوی صاحب کوعاجزانہ انداز میں کہا۔ " شاعر جب شعر لکھ دے تو اس کے بعد وہ شاعری اس کی نہیں بلکہ عوام کی ملکیت بن جاتی ہے۔ اس لئے یہ چوری نہیں، مولوی صاحب نے کہا۔ تم لوگ میری شاعری گاتے  ہو، جس میں ایک پیغام ہے جو ہزاروں لوگوں تک تم پہنچاتے ہو۔ میرا مسلک کوئی بھی ہو، لیکن میں شاعر بھی ہوں، اور شاعر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی شاعری عام لوگوں تک پہنچے۔ تم تو میری شاعری کے مبلغ ہو، معافی کی ضرورت نہیں، اس کے بعد مولوی صاحب نے اپنی جیب سے دس روپے نکالے اور گویوں کو انعام میں دیئے، یہ رقم اس دور کا بہت بڑا انعام تھا۔

محمد موسیٰ کی موت افسانوی تھی۔ انتقال کی خبر آئی تو میرے بھائی اسلم نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا" کاش میری موت بھی اس طرح ہی افسانوی ہو"۔ لگ بھگ 66 سال تک وہ تواتر کے ساتھ ڈائری لکھتے رہے۔ زندگی کے چند آخری ایام ہی ایسے تھے، جب وہ یہ کام نہ کر سکے۔ میری آخری ملاقات ہوئی تو مجھے کہا کہ 82 کا ہو گیا ہوں۔ معاہدہ تو اوپر والے سے ایک سو سال کا ہے، لیکن معلوم نہیں کہ معاہدہ پورا بھی ہوگا یا نہیں؟ کیوں نہیں؟ میں نے انہیں کہا تھا۔ " ہم تو ابھی آپ کے سیاسی تجربات کو سننا چاہتے ہیں، اسے قلمبند کرنا چاہتے ہیں جینے کیلئے ابھی ایک عمر پڑی ہے" ہنس کر کہا " ارے یار" وہ جب کسی بات پر خوش ہوتے اور جواب نہ دینا چاہتے تو یہ ہی دو الفاظ دھراتے۔ "ارے یار" اگر کسی کو زیریں سندھ " لاڑ" کی تاریخ جاننی ہو تو ان کی کتاب " اھی ڈینھن اھی نینھن" کا مطالعہ کرے تو باقی کسی کتاب کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ان کی یہ کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔

گذشتہ ایک دہائی سے میں محمد موسیٰ کو کہتے رہے کہ وہ اپنی سوانح حیات لکھیں تاکہ واقعات ریکارڈ پر آجائیں، لیکن وہ ہر بار کہتے کہ سوچتا ہوں، پھر ایسا ہوا کہ انہیں ایک عاشق کی صورت میں ایسا درویش صفت پاگل مل گیا جس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس کا معشوق کتنا قیمتی ہے۔ اور یہ کام اس نے اپنے ذمہ لے لیا۔ اس کا نام علی اظہار ہے۔

محمد موسیٰ 65 سال سے زیادہ عرصہ روزانہ ڈائری لکھتے رہے، لیکن اسے کتابی شکل دینے کی انہوں نے کوشش نہیں کی۔ علی اظہار سندھ کے نامور شاعر اور ادیب ہیں۔ انہوں نے مختلف ایام میں ایک سو گھنٹے تک محمد موسیٰ جوکھیو کے ساتھ باتیں کیں، اور پھر اسے کاغذ پر اتارنے کا کام کیا، ایڈیٹنگ کی، واقعات کو ترتیب دیا، اور چھ بار پروف ریڈنگ کرائی، لیکن کتاب پرنٹ نہ ہوسکی تھی، اس دوران ہی علی کو معلوم ہوا کہ محمد موسیٰ کی طبیعت خراب ہے، کچھ دنوں بعد ان کی محمد موسیٰ سے ملاقات ہوئی۔ اسے خبر مل چکی تھی کہ انہیں کینسر ہو چکاہ ے۔ اب فوری طور پر کتاب کی اشاعت ممکن نہیں تھی، لیکن محمد موسیٰ کی یہ خواہش تھی کہ ان کی کتاب چھپ جائے تو کیا ہی بات ہوگی۔

علی اظہار کو ایک طریقہ سوجھا، انہوں نے کتاب کے صفحات کے پرنٹ نکلوائے، ٹائٹل جو پہلے ہی بنا ہوا تھا، لگا کر بائنڈنگ کرائی اور اسے کتاب کی شکل دے کر دوستوں کو اطلاع دی کہ وہ بدین آرہے ہیں، محمد موسیٰ کو سرپرائز دیں گے۔

محمد موسیٰ بستر پر تھے، ان کی یادداشت کافی متاثر ہوچکی تھی، درد کے باعث اکثر غنودگی طاری ہو جاتی، چند منٹ بعد ہوش آتا، اس طرح کی صورتحال میں دوستوں کی خواہش صرف یہ تھی کہ محمد موسیٰ اپنی کتاب کی رونمائی خود کریں۔

گھر کے چھوٹے سے کمرے میں محمد موسیٰ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ کتاب کی رونمائی بھی کی، شریک دوستوں نے کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن جو سب سے اہم بات تھی وہ یہ تھی کہ محمد موسیٰ نے خود بیس منٹ تک اس کتاب پر بات کی۔ دیے میں تیل ختم ہونے لگے تو آخری لمحات میں اس کی روشنی تیز ہونے لگتی ہے، ایسا ہی ہوا تھا۔

رات کو مجھے امین کا فون آیا کہ کتاب کی رونمائی ہوگئی، محمد موسیٰ بہت خوش تھے، "لگتا ہے کہ اب محمد موسیٰ مزید دو چار سال جی لیں گے" میں نے کہا تھا۔ لیکن چند گھنٹے بعد فون آیا کہ وہ اب نہیں رہے۔ ایسا لگا کہ وہ اس لمحے کےانتظار میں تھے، خواہش پوری ہوئی، لیکن سو سال تک جینے کا معاہدہ پورا نہ ہوا، بوڑھے نے آنکھیں بند کیں، سندھ کا عاشق اپنی ماں کی گود میں سو گیا۔

بدین شہر کے میں شاہ برہان قبرستان میں ان کی قبر پر حاضر دینے گیا تو میں دل سے بہت افسردہ تھا، لیکن ان کو خراج پیش کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ کھل کر باتیں کریں، سیاست کی ادب کی اور تاریخ کی، ان کا بیٹا سچل اور میر بلیدی ساتھ تھے، ہم نے ایسا ہی کیا، اس بار وہ میرے گھر نہیں آئے لیکن مجھے ان کی آخری آرام گاہ پر جانا پڑا، اس لمحے کی کیفیت بیان کرنا مشکل ہے۔

علی کی مرتب کردہ محمد موسیٰ کی کتاب اس بار فاضل راہو کی برسی میں موجود تھی، لیکن محمد موسیٰ وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ 34 برس تک بلاناغہ فاضل راہو کی برسی میں جاتے رہے۔ فاضل راہو سے ان کا تعلق تب بنا جب وہ یونین کونسل ترائی کے سیکرٹری اور فاضل صاحب چیئرمین تھے۔ سندھ کی سیاست سے واقف سیاسی کارکنان فاضل راہو کو خوب جانتے ہیں۔ فاضل راہو کا گاؤں راہو کی ایک زمانے میں کسان سیاست کا مرکز رہا اور محمد موسٰی اس مرکز کے خدمتگار رہے۔

ان کی 82 سالہ زندگی میں فاضل راہو کے علاوہ انہیں کسی نے متاثر نہیں کیا۔ یہ ہی سبب تھا کہ ان کا گھر چار دھائیوں سےسیاست کا مرکز رہا۔ آج جب ملک میں عورت مارچ، خواتین کے حقوق اور شعور کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ تب اس واقعے کا بیان اور بھی زیادہ اہم ہے۔

یہ 1983ء کی بات ہے۔ سندھ ضیا آمریت کے جبر کو للکار رہا تھا۔ ان دنوں سندھ کی تاریخ میں پہلی بار بدین میں خواتین کے ایک جلوس نے ملک کے لوگوں کی اپنی طرف توجہ مبذول کرائی۔ محمد موسیٰ بتاتے ہیں کہ یہ 1981ء کی بات ہے۔ ضیا آمریت اپنے جوبن پر تھی اور سندھ اسے للکار رہا تھا۔ سیاسی کارکنوں کو آئے روز چوک پر کوڑے مارنا معمول تھا۔ لیکن سیاسی رومانس کا عروج یہ تھا کہ جب گولاڑچی میں ایک سیاسی کارکن کو کوڑے مارنے کیلئے لے جایا جا رہا تھا تو وہ رقص کرتا ہوا ٹکٹکی تک گیا تھا۔

ضیاء نے نعرہ دیا کہ پاکستان کا مطلب کیا، عوام نے جواب میں کہا پھانسی، کوڑے مارشل لا۔ ان دنوں عوامی تحریک کی کوکھ سے سندھیانی تحریک کا جنم ہو چکا تھا۔ شہید فاضل راہو نیلام بند کرو جیسی تحریکوں کی کامیابیوں کی علامت تھے، ان دنوں بدین جیسے پسماندہ اور دیہاتی پس منظر رکھنے والے قصبے میں بغیر برقع خواتین کا گھروں سے نکلنا معیوب ہوتا تھا۔ پہلی بار بدین کے مہران چوک پر خواتین کے تاریخی احتجاج نے سندھ میں ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔

’’میری بہن عائشہ بھی اس احتجاج میں شامل تھیں، جس نے اس مظاہرے سے خطاب بھی کیا، ہمارے گھر کی باقی خواتین نعرے لگاتی رہیں، وہ بتاتے ہیں کہ دوسرے روز جب اخبارات میں اس احتجاج کی خبریں اور تصاویر شائع ہوئیں تو ہمارے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو چکا تھا۔ سندھ کے جس علاقے میں ہم رہتے ہیں ،ان دنوں کسی خاتون کا گھر سے نکلنا ہی بڑی بات ہوا کرتا تھا، اور اگر ان حالات میں کسی خاتون کی تقریر کرتی ہوئی تصویر اخبار میں شائع ہوجائے تو اسے روایتی لوگ تو رسوائی ہی سمجھتے تھے۔

محمد موسیٰ بتاتے ہیں کہ کسی نے ان کے والد کو وہ اخبارات لا کر دکھائے اور اوپر سے یہ بھی سوال کیا کہ آپ ان تصاویر کو پہنچانتے ہیں؟ یہ بات جب ہمیں معلوم ہوئی تو ہم گھر کے تمام افراد بہت پریشان تھے۔ اپنے طور یہ دعا کرتے رہے کہ خدا کرے کے والد صاحب سے سامنا نہ ہو، لیکن اس روز شام کو گھر میں والد صاحب میری چارپائی پر آئے اور مجھے گلے لگا کر مبارک بادی اور کہا کہ "یار تم نے تو وہ کام کردکھایا جو اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں‘‘ محمد موسیٰ  بتاتے ہیں۔

محمد موسیٰ جوکھیو 28 جولائی 2021ء کو انتقال کرگئے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ بستر بیماری پر جانے سے پہلے تک سندھ کیلئے جہاں لوگ اکٹھے ہوں وہ وہاں پہنچ جاتے تھے، کم گو تھے، سننے کا کا بڑا حوصلہ تھا۔ بجا طور پر وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے گواہ تھے، انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہندوستان کی تقسیم دیکھی، 70ء کی دہائی میں پاکستان کو دولخت ہوتے دیکھا، پاکستان اور سندھ کے سیاسی  کرداروں کے بارے میں وہ بہت باخبر تھے۔

تقسیم کے بعد سندھ کے سیاسی منظرنامے کی تبدیلی کے وہ آنکھوں دیکھے گواہ تھے، انہوں نے اپنی سوانح عمری میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ جس طرح دیکھا اورجیسے سمجھا ویسے ہی بیان کر دیا ہے۔ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ علی اظہار نے  محمد موسیٰ کی بیان کردہ تمام باتیں ایمانداری سے ہم تک پہنچائیں، وہ واقعی حیران کن بھی ہیں تو قابل غور بھی، علی اظہار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک انہونی کو ہونی کرکے دکھایا، اور ہم تک وہ تاریخی واقعات پہنچائے جنہیں قلم بند کرنا بہت ضروری تھا۔

وہ ایک سو گھنٹے، جس میں آٹھ دہائیوں کا طویل تذکرہ تھا، واقعات تھے، درد اور قہقہے بھی، ان سبب کو چھاننا اور پھر ترتیب دینا کسی بھی بڑے چلینج سے کم نہ تھا، لیکن جب کام سے عشق ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ اور تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا۔

 

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔