• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

شاری بلوچ کون تھی؟

1991ء کو محمد حیات کے گھر پیدا ہونے والی 31 سالہ شاری بلوچ سات بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔ شاری بلوچ نے بنیادی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول تربت سے حاصل کی۔ ایف ایس سی گورنمنٹ گرلز کالج تربت سے کیا اور بعد ازاں بلوچستان یونیورسٹی میں ایم ایس زوالوجی کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تربت برانچ سے ایم ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی۔

اسد بلوچ by اسد بلوچ
مئی 6, 2022
in ایڈیٹر کی پسند, فیچر
303 3
0
شاری بلوچ کون تھی؟
357
SHARES
1.7k
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

بلوچستان میں گذشتہ بیس سالوں سے سرگرم کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کی پہلی خود کش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش کون تھی؟ اس کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ اور خود شاری بلوچ کی شخصیت، ان کی سہیلیوں، کلاس فیلوز، خاندان یا ان کے زیر تربیت طالبات اور ساتھی اساتذہ کے ساتھ ان کا رویہ کیسا تھا؟ اس بارے جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

شاری بلوچ کا گھرانہ بلوچستان کی سیاست میں ابتدا سے ایک سرگرم خاندان کے طور پر نظر آتا ہے۔ ان کے والد اور بھائیوں کا گو کہ کبھی سیاست میں بظاہر کردار نہیں رہا تاہم ان کے چچا پروفیسر غنی پرواز زمانہ طالب علمی سے سیاسی طور پر ایک متحرک کردار رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے ایک ماموں صدیق آزات بھی بلوچستان کی سیاست میں نمایاں نام کے طور پر یوں جانے جاتے ہیں کہ وہ بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او کی تشکیل کے بنیادی کرداروں میں سے ایک ہیں۔ اس کے علاوہ شاری بلوچ کا گھرانہ علمی اور ادبی لحاظ سے بھی ایک معروف گھرانہ ہے۔ ان کے اپنے والد محمد حیات اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے ایک سال قبل بطور رجسٹرار تربت یونیورسٹی ریٹائرڈ ہو گئے جبکہ شاری بلوچ کی دو بہنیں اور ان کے بھائی اہم سرکاری عہدوں پر ملازمت کر رہے ہیں۔ شاری بلوچ خود ایم ایس زوالوجی اور ایم ایڈ کرنے کے بعد شعبہ ایجوکیشن میں ایم فل کا ارادہ رکھتی تھیں۔ وہ اپنی وفات تک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کلاتک ضلع کیچ میں جے وی ٹیچر (پرائمری ٹیچر) رہیں۔

RelatedPosts

چین پاکستان اقتصادی راہداری میں کوئلے کی واپسی

چین نے 2 ارب ڈالرز قرض کی ادائیگی رول اوور کر دی: وزیر خزانہ

Load More

شاری بلوچ کا نظر آباد میں آبائی گھر کا بیرونی منظر

ان کے ماموں صدیق آزات بلوچی زبان میں ایک معروف ادیب کے طور پر پہچان رکھتے ہیں اور اپنے ادبی وسیاسی خیالات کے سبب کئی سالوں سے سویڈن میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر چکے ہیں۔

شاری بلوچ کے چچا پروفیسر غنی پرواز علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے لیے پورے بلوچستان میں ایک نمایاں نام ہیں۔ ادب، فلسفہ، شاعری، انسان دوستی کے علاوہ متعدد موضوعات پر انہوں نے 40 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ ایک سال قبل ان کی آپ بیتی شائع ہوئی تھی۔ وہ بنیادی طور پر افسانہ اور ناول لکھتے ہیں۔ تاہم شاعری اور دیگر اصناف ادب پر بھی ان کی تخلیقات موجود ہیں۔

شاری بلوچ کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تقریباً چار دہائی قبل ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹرز تربت سے 90 کلومیٹر مغرب میں واقع تحصیل تمپ کے گاؤں نظر آباد سے تربت سٹی منتقل ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد حیات نے بتایا کہ وہ اپنی پڑھائی اور ملازمت کے سلسلے میں لڑکپن سے تربت میں آئے البتہ نظر آباد سے وہ 1989ء کو باقاعدہ اہل وعیال کے ہمراہ تربت شفٹ ہوئے۔ ان کے مطابق شاری بلوچ کی پیدائش 3 جنوری 1991ء کو کوئٹہ میں ہوئی تھی جبکہ اپنی ابتدائی تعلیم شاری بلوچ نے تربت میں حاصل کی۔

1991ء کو محمد حیات کے گھر پیدا ہونے والی 31 سالہ شاری بلوچ سات بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔ شاری بلوچ نے بنیادی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول تربت سے حاصل کی۔ ایف ایس سی گورنمنٹ گرلز کالج تربت سے کیا اور بعد ازاں بلوچستان یونیورسٹی میں ایم ایس زوالوجی کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تربت برانچ سے ایم ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی۔

شاری بلوچ کے سیاسی خیالات

جب وہ گورنمنٹ گرلز کالج تربت میں زیر تعلیم تھیں، تب ان میں سیاسی خیالات در آنا شروع ہوئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بلوچ سیاسی تحریک نوجوان طبقے کو متاثر کر رہی تھی اور کریمہ بلوچ ایک متحرک خاتون لیڈر کے طور پر خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو سیاست میں حصہ دار بنا رہی تھی۔

بلوچستان یونیورسٹی میں شاری بلوچ کی ایک بیچ فیلو نغمہ بلوچ (فرضی نام) جو ان کی آبائی گاؤں نظر آباد سے تعلق رکھتی ہیں کے مطابق شاری بلوچ کو یونیورسٹی میں بی ایس او آزاد کی سرگرمیوں میں ہمیشہ دیکھا گیا۔ نغمہ بلوچ کے مطابق جب علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں ان کے والد کا قتل کیا گیا تو شاری بلوچ تعزیت اور دلاسہ دینے کے لیے میرے پاس آئی۔ ان کے مطابق شاری بلوچ ایک بولڈ اور ہمدرد لڑکی تھی۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں اپنی جگہ لیکن اپنے لیے جو موت اس نے چنی، کم از کم ہم نے کبھی ان کے بارے میں اس حد تک چلے جانے کا نہیں سوچا تھا۔

ڈاکٹر سمی پرواز شاری بلوچ کے فرسٹ کزن ہونے کے علاوہ لیڈی ڈاکٹر اور بلوچی ادب کے ایک معروف لکھاری ہیں۔ ڈاکٹر سمی پرواز کہتی ہیں کہ شاری بلوچ خاندان میں ہر ایک کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔ ان کا رویہ ایک غیر روایتی لڑکی جیسا تھا۔ اپنے خاندان میں گھل مل جانا، ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ، تعلیم کا شوق، یہ ان کے اوصاف تھے۔ ہم نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ وہ ایک دن اپنے لیے موت کا یہ پرخطر اور المناک راستہ چنے گی۔

شاری بلوچ کے والدین کا نیا گھر

شاری بلوچ کی شادی ڈاکٹر ہیبتان بشیر کے ساتھ یکم مئی 2014ء کو ہوئی۔ ان کے دو بچے 7 سالہ ماہ روش اور چار سالہ میر حسن ہیں۔ وہ این ٹی ایس پاس کرکے 2017ء کو جے وی ٹیچر بھرتی ہوئی۔ ان کی فرسٹ اپوائنٹمنٹ آرڈر گرلز پرائمری سکول نظر آباد میں ہوئی اور پھر 20 اکتوبر 2018ء کو ان کا تبادلہ ان کے شوہر کے قصبے کلاتک کے گرلز ہائی سکول میں کیا گیا۔ یہاں پرائمری سیکشن کے بجائے ٹیچرز کی کمی اور ان کے اعلیٰ تعلیمی اسناد اور قابلیت کی بنا پر ان کو سیکنڈری سیکشن کی کلاسیں دی گئیں۔ وہ گرلز ہائی سکول کلاتک میں جماعت نہم اور جماعت دہم کی طالبات کو سائنس کے مضامین اور اردو پڑھاتی تھیں۔

ایک سٹاف ممبر نے شاری بلوچ کو یاد کرتے ہوئے ان کے اس موت پر افسوس کیا۔ ان کے مطابق شاری بلوچ میں قطعاً ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی گئی جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ وہ خود کش حملہ آور کی صورت اختیار کرے گی۔ ان کا رویہ ناصرف ٹیچنگ سٹاف کے ساتھ بلکہ نان ٹیچنگ سٹاف کے ساتھ بہت زیادہ مشفقانہ رہا۔ وہ سب کی دوست اور سہیلی تھی۔ ان میں پڑھنے کا جنون تھا لیکن سکول میں کبھی اسے سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

شاری بلوچ کی ایک طالبہ کے مطابق کلاس روم میں وہ ایک ٹیچر سے زیادہ ایک بڑی بہن دکھتی تھی۔ تمام طالبات کے ساتھ پیار اور انسیت کے ساتھ پیش آتیں۔ ان کا رویہ کبھی تلخ نہیں رہا۔ وہ غریب طالبات کی مدد بھی کرتی تھیں۔

محکمہ ایجوکیشن کے ریکارڈ کے مطابق شاری بلوچ 22 اکتوبر 2021ء سے سکول سے غیر حاضر تھیں۔ انہوں نے ایم فل کے لیے 27 اکتوبر 2021ء کو سٹڈی لیو کی سکول کو درخواست دی تھی لیکن محکمہ ایجوکیشن نے ان کی چھٹیاں منظور نہیں کیں۔ اس نے 22 اکتوبر 2021ء سے اسکول آنا چھوڑ دیا تھا اور شوہر کے ہمراہ کراچی چلی گئی تھیں۔ سکول میں مسلسل غیر حاضری پر ان کو شوکاز کیا گیا تاہم اس نے اس شوکاز کا جواب نہیں دیا۔

گرلز ہائی سکول کلاتک جہاں شاری بلوچ بطور استاد پڑھاتی رہیں

شاری بلوچ کے والد محمد حیات نے بتایا کہ وہ ان کی سب سے ہنس مکھ اور پیاری بیٹی تھی۔ میڈیا میں ان کے حوالے سے چلائی گئی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ان کے تعلقات شادی کے بعد فیملی سے خراب رہے۔ محمد حیات کے مطابق موت سے کچھ دن قبل ایک رات فون کرکے شاری بلوچ نے گھر والوں سے بات کی اور ان کو اپنی عید شاپنگ کے بارے میں بتایا۔ اس نے تمام گھر والوں سے پیار اور محبت سے بات کی۔ ہم عید پر اس کی آمد کے منتظر تھے۔

والد کے مطابق شاری بلوچ کی میت ابھی تک ہمارے حوالے نہیں کی گئی۔ البتہ سرکاری حکام سے ہماری بات ہو رہی ہے۔ امکان ہے کہ عید کے بعد ضروری کارروائی مکمل کرکے میت کی باقیات ہمارے حوالے کی جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ شاری بلوچ کی تدفین کو سیاسی رنگ دینے کے حق میں نہیں ہیں، البتہ اگر کوئی جنازہ میں آنا چاہے تو انہیں زبردستی روکا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ شاری بلوچ کو آبائی گاؤں نظر آباد میں دفن کریں گے۔

کلاس کا اندرونی منظر جہاں شاری بلوچ بچیوں کو تعلیم دیتی تھیں

کراچی میں چینی ثقافتی مرکز پر مہلک حملے کے بعد جہاں پاکستان میں حال ہی میں بننے والی حکومت پر ملک میں چینی مفادات کے تحفظ کے لیے شدید دباؤ ہے، وہیں بلوچ معاشرہ منقسم ہے اور ایسے لوگ ہیں جو اس حملے کو حیران کن سمجھتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں ایک خاتون جو دو بچوں کی ماں تھی جو خود ایک استاد تھی، نے تین اساتذہ کی جان لے کر بلوچ سوسائٹی کو کونسا فائدہ پہنچایا۔ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی اس کارروائی پر شاری بلوچ اور ہیبتان کے اہل خانہ سمیت بہت سے لوگ ناخوش ہیں۔ ہیبتان کے اہل خانہ نے کھل کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس فعل کو غیر انسانی اور بلوچ ثقافت کی روایات کے خلاف قرار دیا ہے۔ بلوچوں میں منقسم رائے اور ناخوشی کے پیش نظر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا بی ایل اے مستقبل میں خواتین کو ایسے مہلک حملوں کے لیے استعمال کرتی رہے گی یا نہیں؟

Tags: Baluchistan Liberation ArmyBLAchinaCPECpakistanShari Balochterrorismبلوچستان لبریشن آرمیبی ایل اےشاری بلوچعلیحدگی پسند
Previous Post

اسلام آباد مارچ کو جنرل فیض مانیٹر کریں، عمران خان نے مدد طلب کرلی، جنرل باجوہ پر دبائو بڑھایا جانے لگا

Next Post

خوف اور امید کے بیچ: عمران خان سے شہباز شریف تک کچھ نہیں بدلا

اسد بلوچ

اسد بلوچ

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 25, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
خوف اور امید کے بیچ: عمران خان سے شہباز شریف تک کچھ نہیں بدلا

خوف اور امید کے بیچ: عمران خان سے شہباز شریف تک کچھ نہیں بدلا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In