'ہمیں نہیں لگتا کہ یہ وہ پرامن پشاور ہے جہاں ہمارے آبا واجداد نے صدیوں زندگی گزاری'

'ہمیں نہیں لگتا کہ یہ وہ پرامن پشاور ہے جہاں ہمارے آبا واجداد نے صدیوں زندگی گزاری'
پچپن سالہ سکھ سماجی اور سیاسی کارکن رادیش سنگھ کے آبا واجداد صدیوں سے پشاور میں مقیم چلے آ رہے ہیں۔ رادیش سنگھ نے سال 2018ء تک اپنی کمیونٹی کے حقوق اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھائی اور اس سلسلے میں 2018ء کے عام انتخابات میں پشاور سے صوبائی اسمبلی کے لئے الیکشن بھی لڑا لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔

سکھوں کے لئے ایک موثر اور مضبوط آواز رادیش سنگھ جو اس وقت جنوبی افریقہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کہتے ہیں "سال 2018 میں جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیوں میں تیزی آئی تو میں نے پہلے لاہور اور پھر جنوبی افریقہ ہجرت کی اور آج کل وہیں پر مقیم ہوں۔"

نیا دور میڈیا کو ٹیلی فون پر خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2010ء کے بعد سے سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور ان سے بھتہ مانگنے کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن 2010ء سے پہلے سکھ پاکستان اور خصوصاً پشاور میں زیادہ محفوظ تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ اس حقیقت کو رد کیا ہے کہ پاکستان میں داعش کا وجود ہے لیکن وہ سکھوں پر مسلسل حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار ہم نے پشاور میں سکھوں کے قتل عام پر صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا تو اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ہمیں کہا کہ آپ کے تحفظ کے لئے ہم آپ کو پستول کے لائسنس جاری کرتے ہیں جو کسی مذاق سے کم نہیں تھا۔

رادیش سنگھ کہتے ہیں کہ سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے اور اب داعش کی حقیقت کو پاکستان کی جانب سے قبول کر لیا گیا ہے کہ یہ ایک تنظیم ہے جو وجود رکھتی ہے اور پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں سکھوں پر حملے کر رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اقلیتیں اور خصوصاً سکھ خود کو خیبر پختونخوا میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ ہجرت کرتے ہیں۔ جب وہ ہجرت کرتے ہیں تو اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرتے ہیں اور انہوں نے زندگی میں اس سے پہلے جو محنت کی ہوتی ہے وہ سب ضائع ہو جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا ملک افغانستان میں دہشتگردوں کی زبردستی حکومت سنبھالنے اور فتح پر جشن مناتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کا ملک اور آپ کے شہری محفوظ ہوں۔

واضح رہے کہ پشاور میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری کالعدم داعش نے کئی مواقع پر قبول کی ہے۔ پشاور پولیس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پشاور میں داعش سرگرم ہے جو دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

پاکستان میں سکھوں کی کتنی تعداد ہے؟

سکھوں کی تنظیم سکھ فیڈریشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں 1200 کے لگ بھگ سکھ گھرانے ہیں اور گذشتہ کئی سالوں میں 22 کے لگ بھگ سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پشاور میں تقریباً 15 ہزار سکھ آبادی موجود ہے جو زیادہ تر پشاور کے محلہ جوگن شاہ میں آباد ہے اور اس محلے کو منی امرتسر بھی کہا جاتا ہے۔

سکھ فیڈریشن آف پاکستان کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقہ جات خیبر اور اورکزئی میں اس صدی کے آغاز میں شروع ہونے والی دہشت گردی سے پہلے 40 ہزار کے لگ بھگ سکھ خاندان موجود تھے، جن کی ایک بڑی تعداد 2004ء میں پشاور منتقل ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد انڈیا بھی چلی گئی تھی۔ اسی طرح مالاکنڈ ڈویژن میں 2008ء کے طالبائزیشن دور کے اندر بھی سکھ اپنا آبائی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

کیا سکھ آبادی خیبر پختونخوا سے اب بھی ہجرت کر رہی ہے؟

پشاور میں مقیم صحافی لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ سکھوں کے لئے مسلمان آبادی میں کوئی انتہا پسندانہ رجحانات نہیں ہیں۔ گذشتہ 15 سال میں سکھوں کی آبادی پشاور اور پاکستان سے باہر منتقل ہو گئی کیونکہ ٹارگٹ کلنگ میں یہ لوگ زیادہ تر نشانے پر رہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ضلع خیبر میں منگل باغ نے سکھ کمیونٹی کے کچھ لوگوں کو اغوا کیا تھا جس کے بعد یہ لوگ آہستہ آہستہ خیبر پختونخوا اور خصوصاً پشاور سے پنجاب یا پھر پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں سکھوں کی ایک خاص تعداد میں آبادی موجود ہے اور وہاں پر ان کی عبادت گاہیں بھی ہیں اور کاروباری طور پر بھی خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ قبائلی ضلع خیبر سے درجنوں سکھ خاندان ہجرت کرکے پشاور میں آباد ہوئے۔ پشاور کی سکھ برادری کے زیادہ تر لوگ کاروبار سے وابستہ ہیں جب کہ پشاور کے مختلف علاقوں میں سکھ برادری کے افراد دواخانے بھی چلا رہے ہیں۔

حال ہی میں پشاور میں قتل ہونے والے ایک سکھ تاجر کے بھائی گورو سنگھ (فرضی نام) نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ہمارا بھائی جو خاندان کا کفیل تھا، اسے نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر بھرے بازار میں قتل کیا۔ وہ کہتے ہیں ان کے بچے اس ریاست سے کیا یہ سوال نہیں کر سکتے کہ ان کے باپ کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟ کیا ریاست ہمارا تحفظ نہیں کرے گی؟ لوگ سمجھتے ہیں جیسے ہم کوئی ہندوستانی جاسوس ہیں لیکن ہم انڈیا سے نہیں آئے ہیں، ہم یہاں کے شہری ہیں اور ہمارے آبا واجداد کی یہ زمین ہے۔ ہم کیمرے پر بات نہیں کر سکتے، ہم بلاخوف باہر نہیں گھوم سکتے کیونکہ ہر طرف یہی خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی موٹر سائیکل سوار آ کر ہمارے سر پر پستول رکھ کر قتل کر دے گا۔ پھر کون ہمارے بچوں کی کفالت کرے گا؟ وہ کہتے ہیں کہ بھائی کے قتل کے بعد ہم نے خواتین کا سونا بیچا اور دیگر اثاثے بھی بیچ رہے ہیں کیونکہ یہ وہ پشاور نہیں جہاں ہمارے آبا واجداد نے مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارے اور محبت کی زندگی بسر کی تھی۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ پشاور اب ہمارے لئے جہنم بنا دیا گیا ہے جہاں ہمارے بھائیوں کو سرعام گولیاں مار کر قتل کیا جاتا ہے مگر مجرم نہیں پکڑے جاتے۔

قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کی وجہ سے 250 سے زائد خاندان ضلع خیبر سے پشاور منتقل ہوئے تھے جبکہ 2010ء میں پشاور میں ٹارگٹ کلنگ شروع ہونے کے باعث 2012ء اور 2013ء میں 50 کے قریب خاندان انڈیا اور 2015ء سے 2020ء تک تقریباً 50 خاندان پنجاب منتقل ہوئے۔

سکھوں کے انتم سنسکار کرنے کے لئے خیبر پختونخوا میں شمشان گھاٹ کیوں نہیں ہے؟

جولائی 2020ء کا مہینہ پشاور کے سکھوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا جب پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں مسافر ٹرین اور بس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پشاور سے تعلق رکھنے والے سکھ برادری کے 21 لوگ جاں بحق ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں پشاور سے تعلق رکھنے والے گورمیت سنگھ کے والدین بھی شامل تھے۔

گورمیت سنگھ کے رشتہ داروں سمیت والدین بھی اس حادثے کی زد میں آئے تھے لیکن پشاور کی سکھ آبادی کے لئے اس حادثے کی تکلیف کے بعد سب سے بڑی تکلیف جاں بحق ہونے والوں کی آخری رسومات ادا کرنا تھیں کیونکہ پشاور میں سکھوں کی آخری رسومات (انتم سنسکار) کرنے کے لئے کوئی شمشان گھاٹ نہیں ہے۔

آخری رسومات ادا کرنے کے لئے سکھ اپنے مردوں کو پنجاب کے شہر اٹک لے کر جاتے ہیں اور وہاں پر آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ گورمیت سنگھ کہتے ہیں کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے 21 سکھ اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور ان سب کی آخری رسومات کے لئے ہمارا قافلہ پشاور سے اٹک کے لئے روانہ ہوا جو 21 ایمبولینس اور 200 سے زائد گاڑیوں پر مشتمل تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ سکھ آبادی اس وقت کالعدم تنظیموں کی جانب سے نشانے پر ہے اور کسی وقت بھی حادثہ ہو سکتا تھا مگر وہ آخری رسومات خیر و عافیت سے ادا ہو گئی مگر تاحال پشاور کی سکھ آبادی کے لئے کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں ہے اور حکومت کے کئی دعوؤں کے باوجود شمشان گھاٹ تاحال نہیں بنایا گیا۔

وہ کہتے ہیں سکھ آبادی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور پشاور سے اٹک جانے اور آخری رسومات ادا کرنے پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

پاکستان میں سکھ آبادی کی تعداد 55 ہزار کے لگ بھگ ہے اور 35 ہزار اس وقت خیبر پختونخوا میں آباد ہیں۔ لیکن پشاور سمیت سوات، مردان، کوہاٹ، نوشہرہ اور ہنگو میں بھی اس وقت کوئی شمشان گھاٹ موجود نہیں ہے جہاں سکھ کمیونٹی کے لوگ آباد ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے پشاور میں لگ بھگ 200 شمشان گھاٹ تھے مگر رفتہ رفتہ یہ شمشان گھاٹ یا تو حکومت کی ملکیت یا پھر قبضے کی صورت میں ختم ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اقلیت وزیر زادہ سے شمشان گھاٹ کے حوالے سے لیے گئے اقدامات کے حوالے سے مؤقف جاننے کے لئے بار بار رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

گذشتہ سال وائس اف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ ہم نے شمشان گھاٹ کے لئے زمین حاصل کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگ زمین دینے کے لئے راضی نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکار کم نرخ پر زمین حاصل کرنا چاہتی ہے جب کہ لوگ مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمین بیچنا چاہتے ہیں اور دونوں نرخوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوسری جانب سکھ آبادی اس دعویٰ کو رد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سرکار چاہے تو کسی بھی زمین پر سیکشن فور لگا کر قبضہ کر سکتی ہے مگر وہ اس میں دلچسپی نہیں لے رہی۔

اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے "جسٹس جیلانی فیصلے" میں کون سی نکات شامل تھی؟

ستمبر سنہ 2013 میں پشاور کے آل سینٹس چرچ میں دو دھماکوں کے نتیجے میں مسیحی برادری کے 81 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس تصدق حسین جیلانی نے جون سنہ 2014 میں از خود نوٹس لیتے ہوئے 32 صفحات پر مشتمل حکم جاری کرتے ہوئے ایک خصوصی بینچ تشکیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی حکم میں وفاقی حکومت کو پابند کیا تھا کہ وہ ایک سپیشل ٹاسک فورس تشکیل دے جس کا کام سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پاکستان کی مختلف اقلیتوں کے بارے میں توہین آمیز باتوں کی روک تھام کے علاوہ ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی کرے۔

اس حکم میں سپیشل پولیس فورس کے نفاذ پر بھی بات کی گئی جس کا مقصد اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے قومی کونسل تشکیل کرنے کا حکم بھی دیا گیا جس کا کام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے تجاویز پیش کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی سکول اور کالجوں کے نصاب میں مذہبی ہم آہنگی بڑھانے کے لیے ایسی تمام نفرت انگیز باتوں کو نکالنے کا بھی حکم دیا جس سے اقلیتوں کی دل آزاری ہو۔

کیا اس فیصلے سے پشاور کے سکھ آبادی کو تحفظ حاصل ہوا ؟

انسانی حقوق پر کام کرنے والے  قانونی ماہر ماجد خان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان ایسا ملک ہے جہاں انصاف اکثر اوقات ہجوم کے ہاتھوں یرغمال رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان وجود معرص وجود میں  آنے کے بعد ہی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی شروع ہوئی ، کبھی ہجوم تو کبھی ائین    پاکستان نے ان کے ساتھ تفریق کی۔ وہ کہتےہیں جسٹس جیلانی کا تاریخی فیصلے سے ایک اُمید پیدا ہوئی کہ شائد اب اقلیتوں کو وہ تحفظ حاصل ہوگا جس کے لئے وہ گزشتہ 75 سال سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن ایسے نہیں ہوسکا ، نہ ہی اس فیصلے پر عملدارمد ہوا اور نہ ہی اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہوسکا ۔ وہ کہتے ہیں اس کی دو بنیادی وجوہات ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ انتظامی  اور دیگر سرکاری اداروں میں جو لوگ بیٹھے ہیں ان میں زیادہ تر افسران اقلیتوں کے حوالے سے متعصب اور تنگ نظری پر مبنی سوچ رکھتے ہیں کیونکہ وہ اقلیتوں کو پاکستان کا برابر شہری نہیں سمجھتے ، اس لئے اُن کے ساتھ مختلف معاملات پر معاونت نہیں کرتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر اقلیتوں کو ملک کے برابر شہری بنانے کے لئے کوئی پالیسی سازی نہیں ہوتی کیونکہ پالیسی سازوں کے اندر بھی موجود زیادہ تر لوگ معتصب ہے اور جو لوگ اُن کے  لئےکچھ کرنا چاہتے ہیں وہ ہجوم سے ڈرتے ہیں کہ کہی اُن کی زندگیوں کو خطرات لاحق نہ ہوجائے۔

ماجد خان ایڈوکیٹ کہتے  ہیں کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک پر امن  اور برداشت پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے میں ناکام رہے ۔ اقلیتیں غیر محفوظ ہے اور درجنوں سکھ اور ہندو یہاں سے ہجرت کرچکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جسٹس جیلانی نے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے جو نکات پیش کئے تھے ابھی تک ان پر عمل درامد نہیں  ہوسکا۔ جیسے دیگر اقلیتیں غیر محفوظ ہیں ایسے سکھ بھی خصوصاً پشاور میں غیر محفوظ ہیں۔ دو درجن کے لگ بھگ سکھوں کو خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں مارا گیا لیکن آج تک کوئی قاتل نہیں پکڑا جاسکا اور نہ ہی سکھ خاندانوں کو  انصاف ملا۔

پشاور میں سکھوں کو ٹارگٹ کلنگ میں کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟

صحافی لحاظ علی کے مطابق سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ کی دو وجوہات ہیں۔ ایک ذاتی جھگڑے جب کہ دوسری وجہ کالعدم تنظیموں کی جانب سے نشانہ بنائے جانا۔ وہ کہتے ہیں کہ سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ میں اس وجہ سے بھی اضافہ ہوا ہے کہ سکھ اپنے حلیے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور کالعدم تنظیموں کے لئے آسان ٹارگٹ ہیں اور وہ کاروبار سے وابستہ ہیں اس لئے بازاروں اور مارکیٹوں میں نظر بھی آتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جب بھی ان کو قتل کیا جاتا ہے تو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس کو کوریج ملتی ہے۔ کالعدم تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ عام آبادی کو جب ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو ان کو میڈیا میں اتنی کوریج نہیں ملتی جتنی سکھوں کو ملتی ہے۔ لحاظ علی کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ٹارگٹ کلنگ صرف کالعدم تنظیموں کی جانب سے ہوتی ہو بلکہ سکھ کمیونٹی کی آپسی اور دیگر کمیونٹیز کے ساتھ تنازعات بھی ان وجوہات میں شامل ہیں۔

سکھوں کی ملک گیر تنظیم کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں سے منتقل ہونے والوں کی بڑی تعداد نے پشاور میں رہائش اختیار کی تھی مگر کچھ نے پنجاب کے علاقوں کا رخ بھی کیا تھا۔ 2014 تک تو یہی سمجھا جاتا رہا کہ دہشت گردی سب کے لئے ہے مگر جب 2014 کے بعد امن قائم ہونا شروع ہوا تو اس کے بعد سے سکھوں کو ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا نشانہ بنایا جانا شروع ہو گیا جن میں اب تک دس سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے جو ریکارڈ پر ہے۔ جب کہ کئی ایک اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔