گلگت بلتستان میں صحافتی ادارے سرکاری اشتہارات کے محتاج کیوں؟

گلگت بلتستان میں صحافتی ادارے سرکاری اشتہارات کے محتاج کیوں؟
گلگت بلتستان سے چھپنے والے اخبارات کی مقامی تنظیم جی بی نیوزپیپر سوسائٹی کے حالیہ اجلاس میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ حکومت گلگت بلتستان میں اشتہارات کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو دبانا چاہتی ہے اور اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم سے کچھ اخبارات کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ صورت حال صرف گلگت بلتستان سے چھپنے والے اخبارات کے ساتھ ہی نہیں بلکہ قومی اخبارات کے مقامی بیوروز کے ساتھ بھی درپیش ہیں۔ خالد حسین، جو کہ ایک قومی صحافتی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ٹی وی چینل پہ صحت کے مسائل کی نشاندہی کر دی تھی جس کا نشانہ میرے اخبار کو بنایا گیا اور تین مہینے تک میرے اخبار کے اشتہارات بند کر دیے گئے۔

گلگت بلتستان کے کم و بیش سبھی اخبارات کو اس صورت حال کا سامنا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اظہار رائے کی آزادی کا تعلق سرکاری اشتہارات کے ساتھ ہے؟

جی بی نیوزپیپر سوسائٹی کے صدر عامر جان سرور کہتے ہیں کہ اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کرنا معمول کی بات ہے۔ اشتہارات اس وقت بند کر دیے جاتے ہیں جب حکومت چاہتی ہے کہ اس کے خلاف خبریں اخبار میں نہ چھپیں۔ بالخصوص پچھلی حکومتوں کے دور میں یہاں اندھیر نگری کا راج تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ابتدائی کچھ دنوں میں ماضی کی ان روایات کو نہیں دہرایا گیا جس کی وجہ سے ہم اس حوالے سے مطمئن تھے لیکن اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر بھی صحافی کوئی پوسٹ کرتا ہے تو اس کے اخبار کے اشتہارات روک دیے جاتے ہیں اور دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اخبار سے مذکورہ صحافی کو نکالا جائے۔ گلگت بلتستان میں نجی شعبہ اتنا مستحکم نہیں کہ اخبار ان کے اشتہارات سے اپنا بزنس چلا سکیں اور ایسی پالیسی بھی نہیں بنی کہ جو لوگ یہاں سے کما رہے ہیں وہ تشہیر کے لیے مقامی اخبارات کو اشتہار دینے کے پابند ہوں۔

ایمان شاہ 03 سال سے مقامی اخبار روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اخبارات کو معاش کی فکر نہ ہو تو یہاں اخبارات میں تحقیقاتی خبریں چھپیں گی۔ اب جب فکر معاش ساتھ ہے تو ہر خبر کے ساتھ مینجمنٹ کو یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ اس خبر کا نقصان کیا ہوگا اور کتنے مہینوں تک اخبار کے اشتہارات بند رہیں گے۔ اسی وجہ سے اس وقت حکومت کے خلاف مواد میں سے صرف 30 فیصد چھپتا ہے اور 70 فیصد ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔ اب پیپر اور پرنٹنگ اس قدر مہنگی ہو گئی ہے کہ اخبارات کی اشاعت جاری رکھنا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں کارپوریٹ سیکٹر باقاعدہ فعال ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں لیکن جی بی میں ایسا نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لئے سرکاری اشتہارات آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس انحصار کا اثر اظہار رائے کی آزادی پر پڑتا ہے۔

محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق سال 2022 میں مجموعی طور پر 1026 اشتہارات جاری ہوئے۔ یہ اشتہارات کم از کم دو اخبارات اور زیادہ سے زیادہ 5 سے 6 اخبارات کو جاری ہوئے۔ یوں مجموعی طور پر محکمہ اطلاعات گلگت سے چھپنے والے اشتہارات کی تعداد 3 ہزار کے قریب بنتی ہے۔ رواں برس اب تک 300 سے زائد اشتہارات جاری ہوئے ہیں۔ ان اشتہارات میں ٹینڈر نوٹسز، ملازمت کے مواقع، شوکاز نوٹس، ڈویلپمنٹ و نان ڈویلپمنٹ کے علاوہ سپلیمنٹس شامل ہیں۔

گلگت بلتستان آرڈر 2018 جو کہ اس وقت اس خطے میں لاگو ہے، میں چیپٹر نمبر 2 کے 19 ویں آرٹیکل میں بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہو گا۔

محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر شمس الرحمن نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں یہ بڑا المیہ ہے کہ اخبارات صرف حکومتی اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں۔ حکومت اشتہارات کے ذریعے ہمیشہ اپنی تشہیر چاہتی ہے تو ایسی صورت حال میں لازمی بات ہے کہ حکومت ان اخبارات کو ترجیح دے گی جو حکومتی اقدامات کی تشہیر کرتے ہیں جس سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ تنقید بھی کریں اور اشتہارات بھی لیں۔ گلگت بلتستان حکومت پہلے دن سے اخبارات کے ساتھ نرم رویہ برتنے کی پالیسی پر کارفرما ہے کیونکہ اس بات کا ہمیں بھی ادراک ہے کہ یہاں لوگوں کے مسائل ہیں اور کوئی دوسرا ذریعہ آمدن نہیں ہے تاہم اشتہارات پر اپنا حق جتانا غیر مناسب بات ہے۔ گلگت میں اس وقت یہ صورت حال ہے کہ صحافی کم اور اخبار زیادہ ہیں۔ تقریباً 30 کے قریب اخبار ہیں جن میں سے کسی ایک کا اپنا بزنس ماڈل نہیں ہے۔

نوم چومسکی کے پروپیگنڈا ماڈل میں بھی حکومتی اشتہار کو ایک ٹول کی حیثیت حاصل ہے جس کے ذریعے حکومت رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے خبروں کی بنیاد پر اشتہارات بند کرنے کی پالیسی کبھی نہیں اپنائی اور نا ہی اس ٹول کو اس طرح استعمال کیا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کبھی اپوزیشن جماعتوں نے یہ شکوہ نہیں کیا کہ ان کی کوریج نہیں ہوتی۔

صدر پریس کلب گلگت خورشید احمد سمجھتے ہیں کہ اشتہارات کا اظہار رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صحافیوں کو تو اشتہار نہیں ملتا۔ البتہ اخباری مالکان پر اس حوالے سے دباؤ ضرور ہوتا ہے کہ خبریں حکومت کے خلاف لگیں گی تو اشتہار نہیں ملے گا۔ اصولی طور پر ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اظہار رائے ہر ایک شہری کا حق ہے اس کے لئے اخبار کی ضرورت نہیں۔ حکومت لازمی طور پر اشہارات کے ہتھیار کو اپنے حق میں استعمال کرے گی۔

پاکستان میں اشتہارات اور اظہار رائے کی آزادی کے تعلق کو الگ رکھنے کے لئے قوانین بھی منظور ہوئے ہیں جن میں سے ایک قانون نیوزپیپرایمپلائز ایکٹ 1973 شامل ہے جس میں ورکنگ جرنلسٹس کے حقوق بالخصوص تنخواہوں اور دیگر معاملات کو تحفظ دیا گیا ہے اور سینیئر صحافی و تجزیہ کار سبوخ سید بھی سمجھتے ہیں کہ اشتہاروں اور اظہار رائے کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ سبوخ سید کہتے ہیں کہ اشتہاروں کا تعلق صحافت کے ساتھ ہے ہی نہیں۔ یہ اشتہارات حکومت کا ایک ٹول ہے اور حکومت اپنے وسائل سے ذرائع ابلاغ پر خرچ کرتی ہے۔ اشتہارات کے حوالے سے حکومت کو یہ دیکھنا چاہئیے کہ کس اخبار کی ترسیل کتنی ہے اور اخبار کا معیار کیا ہے۔ ہزار پرچے چھاپنے والے اخبار اور لاکھ پرچے چھاپنے والے اخبار برابر تو نہیں ہو سکتے۔ اشتہارات کو محض اپنی تشہیر کے ساتھ جوڑنے کا طرز عمل حکومت کو جچتا نہیں ہے، انہیں پالیسی کے تحت کام کرنا چاہئیے۔

ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے رکن سمیع الرحمان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں چونکہ پرائیویٹ سیکٹر نہیں ہے جہاں سے اخبارات کے لئے اشتہارات ملیں اور اخبارات کے مالی مسائل حل ہوں اس لئے گلگت بلتستان کے اخبارات کے مالی معاملات کا دارومدار سرکاری اشتہارات پر ہوتا ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ جن اخبارات میں حکومتی غلط اقدامات کی خبریں و تبصرے چھپتے ہیں حکومت انتقامی طور پر ان اخبارات کو اشتہارات نہیں دیتی جس کی وجہ سے ایسے اخبارات کے لئے شدید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ایسے اخبارات کو بھی آزادی اظہار رائے پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے جو کہ آزادی اظہار کے راستے میں ایک خطرناک رکاوٹ ہے۔ اس سے نا صرف آزادی اظہار رائے متاثر ہو رہی ہے بلکہ شہریوں کے حقائق جاننے کا بنیادی حق بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ قانون اس بات پر زور دیتا ہے کہ سرکاری اشتہارات مساوات اور انصاف پہ مبنی ہوں تا کہ کوئی بھی اخبار آزادانہ طور پر اپنا کام کر سکے جس کا گلگت بلتستان جیسے چھوٹے علاقے میں شدید فقدان ہے۔

فہیم اختر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ صحافت کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔