اردو سیکھنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی قلندر کے آستانے پر آمد

اردو سیکھنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی قلندر کے آستانے پر آمد
آج قلندر بہت خوش تھا۔ کیوں نہ ہوتا۔ بھانجا بلاول بھٹو زرداری آیا ہے آستانے پر۔

'بول کیا کھائے گا؟ نہاری، ہریسہ، سری پاوے، گردے یا کپورے؟'

'انکل آپ نے کیا مجھے میاں نواز شریف سمجھا ہوا ہے؟ بس بلیک کافی ٹھیک رہے گا۔'

'ابے پنکھے جلدی سے کافی لا میرے بھانجے کے لئے۔' قلندر نے اپنے اے ڈی سی کو حکم دیا اور ساتھ ہی بلاول کی اردو درست کی: 'ابے پاٹے خان صحیح کہتا ہے۔ تو گوروں کی طرح اردو بولے ہے۔ زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے! 14 برس ہونے کو آئے۔ پاکستان کا وزیر خارجہ لگ گیا تُو، پر اردو نہ آئی۔ کافی ٹھیک رہے گی۔ یہ درست جملہ ہو گا۔ کافی مؤنث ہے!'

'انکل میں اسی لئے تو آپ کی آستانے پر تشریف لایا ہوں تاکہ کم از کم اردو میں پاٹے خان کو ہرا سکوں۔'
'ابے جاہل آپ کے آستانے پر ہوتا ہے اور آستانے پر حاضری دی جاتی ہے، تشریف نہیں لاتے!'
'آئی ایم سوری انکل۔ یہ باتیں بعد میں۔ پہلے آپ مجھے اردو زبان کے چند فیمس پروورب اور ایڈیمز سکھا دیں۔ لندن میں شیکسپیئر فاؤنڈیشن مرزا غالب کی یاد میں ایک فیسٹیول کرا رہا ہے اور میں وہاں کی مہمان خصوصی ہوں۔' بلاول بولا۔

'ابے فیسٹیول کرا رہی ہے۔ فاؤنڈیشن مؤنث ہے اور میں وہاں کا مہمان خصوصی ہوں۔ مذکر! اچھا کاپی پنسل لایا ہے؟'
'یس یس!'
'کیا یاد کرے گا۔ میں تجھے 10 ایسے زبردست اور حسبِ حال محاورے مع جملوں کے سکھلا دیتا ہوں کہ غالب کی روح بھی گل و گلزار ہو جاوے گی۔ ابے ایسا کر اپنے موبائل پر ریکارڈ کر لے کیونکہ تو لکھے گا رومن میں اور پھر تلفظ کی غلطیاں کرے گا۔'

'ٹیریفک آئیڈیا انکل۔'
'آن ہے؟'
'جی۔'

'بولوں؟'
'جی'
'پہلا محاورہ ہے؛ دین ایمان نہ ہونا۔ اس کا مطلب ہے منافق ہونا۔ پاٹے خان اپریل 2022 سے پہلے باجوہ کو سب سے زیادہ جمہوری اور محب وطن کہتا تھا جبکہ اب میر جعفر گرادنتا ہے۔ اس بندے کا کوئی دین ایمان نہیں۔'

'واہ انکال واہ۔'
'ابے واہ واہ بعد میں کر لیجیو۔ پہلے ریکارڈنگ مکمل کر لے۔'

'جی جی!'

'دوسرا محاورہ ہے؛ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنی ناکامی کا غصہ کسی اور پر اتارنا۔
پاٹے خان کی بے وقوفی کی وجہ سے ارشد شریف حرام موت مارا گیا مگر وہ غصہ واڈکا پر اتار رہا ہے۔ یوتھیے اسے آستین کا سانپ بولے ہیں۔ اب کھسیانی بلی کھمبا نہ نوچے تو اور کیا کرے!

تیسرا؛ جس تھالی میں کھاوے اسی میں چھید کرے۔ مطلب اپنے محسن کے خلاف زہر اگلنا یعنی To bite the hand that feeds.
باجوے ہی نے پاٹے خان کو وزیراعظم لگوایا لیکن وہ اپنے ہی محسن کے خلاف مسلسل ہذیان بکے جا رہا ہے۔ خاندانی آدمی اس تھالی میں ہرگز چھید نہیں کرتا جس میں کھاتا ہے۔

چوتھا؛ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند یا چندا۔ اچھا بھانجے تجھے بتلاتا چلوں کہ استاد بڑے غلام علی خان نے اس محاورے پر راگ درباری میں ایک بندش بھی گائی ہوئی ہے جو تیرے نانا حضور زلفی یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو بہت پسند تھی۔ دوسروں کے لئے تھا وہ بھٹو، پر ہمارے لئے تو زلفی تھا۔ اس کا مطلب یہ کہ عجیب و غریب فرمائش کرنا جسے پورا کرنا ناممکن ہو۔
پاٹے خان بضد ہے کہ نہ صرف آرمی چیف اس کی مرضی کا ہو بلکہ وہ پکا یوتھیا بھی ہو۔ یہ تو وہی بات ہوئی نہ کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چندا!

پانچواں؛ ضرورت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لینا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مفاد کے لئے گھٹیا سے گھٹیا حد تک گر جانا۔
چند برس پہلے تک پاٹے خان جلسوں میں کہتا پھرتا تھا کہ شیخ رشید جیسا بے شرم آدمی، شیدا ٹلی جسے مشرف نے وزیر بنایا ہے، اسے میں اپنا چپڑاسی بھی نہ لگاؤں۔ اوراسی بے شرم کو اس نے پہلے ریلوے اور پھر داخلہ کا وزیر بنا دیا۔ ضرورت پڑنے پر پاٹے خان گدھے کو بھی فخر سے باپ بنا لیتا ہے!

چھٹا بہت اہم ہے اور یہ غالب کا شعر ہے؛ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو یعنی بعض دوستوں کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ایسا نقصان پہنچا دیتے ہیں جو بڑے سے بڑا دشمن بھی نہ پہنچا سکتا ہو۔ مثلاً ضیاء الحق پی پی پی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ مگر تیرے ابا نے اس کا جو حشر کیا، ایسا کرنا ضیاء کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ تو کل پرسوں ایک بھارتی تجزیہ نگار کہہ رہا تھا کہ باجوہ کو چاہئیے کہ پاٹے خان کو فوراً وزیراعظم مقرر کر دے اور وہ بھی پورے 10 برس کے لئے تاکہ ہندوستان کا کام تو پورا ہو جائے۔ بقول اس کے خان بھارت کو بہت 'سوٹ' کرتا ہے۔ یعنی ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔

ساتواں؛ تھوتھا چنا باجے گھنا۔ یہ محاورہ کم ظرف انسان کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پاٹے خان جب اقتدار میں تھا تو کہتا تھا کہ فوج میری حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اب بولتا ہے کہ گھر میں چور گھس آئے ہیں اور چوکیدار کہتا ہے کہ میں نیوٹرل ہوں۔ سچ کہا ہے بزرگوں نے کہ تھوتھا چنا باجے گھنا۔

آٹھواں؛ ارنڈ کی جڑ قبض کا علاج کرتی ہے۔ جس بیماری میں آج کل یوتھیے مبتلا ہیں اس کا علاج ارنڈ کی جڑ ہی سے ممکن ہے۔ شنید ہے کہ باجوے کی سٹک ارنڈ کی بنی ہوئی ہے!

نواں ہے؛ خیالی پلاؤ پکانا یعنی To build castles in the air
پاٹے خان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگلا وزیراعظم بھی میں ہی ہوں گا اور نیا آرمی چیف بھی میں ہی لگاؤں گا۔ بھئی یہ بندہ کمال کا خیالی پلاؤ بناتا ہے!

آخری محاورہ ہے؛ بھینس کے آگے بین بجانا یعنیCasting pearls before swine
پاٹے خان کے وزیروں کو بھی یہ شکایت ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتا۔ اسے سمجھانا ایسا ہی ہے جیسے بھینس کے آگے بین بجانا!

بس تو انہیں رٹا مار لے۔ مجھے یقین ہے کہ بی بی سی اردو تیری تقریر پر رپورٹ بنائے گا اورایسی اردو سنتے ہی اس ادارے کا سربراہ تجھے اردو سروس کا ہیڈ مقرر کر دے گا۔ اور یہ پیشکش بنا پس و پیش قبول کر لیجیو کیونکہ سیاست میں کوئی مستقبل نہیں!'
قلندر نے بلاول کے سر پر ہاتھ پھیرا اور وہ ادب سے چرن چھو کر رخصت ہو گیا۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔