'پی ٹی آئی بلدیاتی الیکشن میں ہار گئی، دو تہائی اکثریت کا دعویٰ کس بنیاد پر کرتی ہے؟'

'پی ٹی آئی بلدیاتی الیکشن میں ہار گئی، دو تہائی اکثریت کا دعویٰ کس بنیاد پر کرتی ہے؟'
2018 کے الیکشن میں سب کو پتہ ہے کہ پی ٹی آئی کو کراچی میں کس طرح مینڈیٹ ملا۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن کے بعد ان کا مینڈیٹ کتنا ہے، یہ پتہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے کراچی کے رہنماؤں میں اندرونی اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ علی زیدی، خرم شیر زمان اور فردوس نقوی عوام میں نہیں جاتے اور لوگوں کے ساتھ رابطے میں نہیں رہتے۔ عمران خان کی بھی اس الیکشن میں دلچسپی نہیں تھی۔ ان کا سارا فوکس پنجاب کی سیاست پر تھا۔ اگر پی ٹی آئی بلدیاتی الیکشن میں اچھا پرفارم نہیں کر سکی تو پھر وہ دو تہائی اکثریت کے دعوے کس بنیاد پر کرتی ہے؟ یہ کہنا ہے اینکر پرسن نادیہ نقی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے نادیہ نقی نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج جتنی دیر سے آئیں گے، اتنا ہی الیکشن کی ساکھ پر سوال اٹھیں گے۔ الیکشن کمیشن کو پہلے سے الیکشن کا معلوم تھا تو انہوں نے عملے کو تربیت کیوں نہیں دی، الیکشن کمیشن کو اس کا جواب دینا چاہئیے، نتائج میں تاخیر سے شکوک و شبہات جنم لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کم ٹرن آؤٹ کی بہت ساری وجوہات ہیں؛ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ بار بار بدلی گئی، ووٹرز کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں میں بھی الیکشن کے بارے میں غیر یقینی کی صورت حال تھی۔ سیاسی پارٹیوں کو بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ لوگوں کو ووٹ کے لیے کیوں نہیں نکال سکے، پارٹی کے ڈھانچے کی عدم موجودگی میں لوگوں کو نہیں نکالا جا سکتا، کراچی کے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ میئر کے پاس مسائل کے حل کے لیے کتنے اختیارات ہوتے ہیں، اس لیے ان کا بلدیاتی انتخابات سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔

کیپٹن (ر) فہیم الزمان نے کہا کہ کراچی میں الیکشن کے نتائج میں تاخیر کی دو وجوہات ہیں؛ فارم 11 کو بنانا اور پھر اس کو لے کر جانا، اس میں غلطی ہو تو پھر ان کو اس میں درستگی کا کہا جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ الیکشن کے عملے میں تربیت کا فقدان ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی پولیٹیکل انجینیئرنگ بھی ہو رہی ہو۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا ایک ڈھانچہ ہے وہ عملہ سندھ حکومت سے لیتے ہیں، پھر ان کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ جو عملہ تربیت لیتا ہے ان میں سے اکثر افراد چھٹیوں پہ چلے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو تیاری کے مراحل کو دھیان سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن میں ٹرن آؤٹ کا کم ہونے کی بنیادی وجہ لوگوں کی سیاسی سسٹم پر اعتماد کی کمی ہے مگر ٹرن آؤٹ کم ہونے کے باوجود نتائج میں تاخیر الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کی شدید ناکامی ہے۔ نتائج میں تاخیر ردوبدل کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں میں صوبائی حکومت نے یہ شرط رکھ دی تھی کہ یونین کونسل ٹاؤن اور سب ڈویژن کی حد کو کراس نہ کریں۔ اس لیے آبادی کے حساب سے یونین کونسلز کی تعداد میں کمی ہے اور یہ تعداد پرانی مردم شماری کے حساب سے ہے۔ ان حلقہ بندیوں کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ملا ہے۔ کچھ علاقوں میں 80 سے 85 ہزار کی آبادی میں ایک یونین کونسل بنائی گئی ہے جبکہ بعض علاقوں میں 9 ہزار ووٹر کے علاقوں میں ایک یونین کونسل بنائی گئی ہے۔ اس طرح کے کاموں سے جمہوری اور سیاسی نظام کو نقصان پہنچتا ہے، اس طرح کے سیاسی نظام میں کون ووٹ ڈالنے جائے گا۔ حیدرآباد سے الیکشن کے نتائج آ گئے ہیں مگر ابھی تک کراچی سے پورے نتائج کا موصول نہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت انتخابات میں خامیوں کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ بلدیاتی الیکشن گلی، محلے اور برادری کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل اور خرم شیر زمان عوامی آدمی نہیں ہیں۔ انہوں نے الیکش کی تیاری کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی پہ انحصار کیا۔ اگر آر ٹی ایس بیٹھ جائے پھر تو آپ جیت جایئں گے ورنہ آپ ہار جاہیں گے۔ پی ٹی آئی میں گلی محلے کی سیاست کرنے والا کوئی بندہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مقامی حکومت کے تمام اختیارات اور ذمہ داریاں صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ نئے میئر کو کتنے اختیارات دیے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کو چاہئیے کہ جمہوری راستہ اپناتے ہوئے مقامی حکومت کو اختیارات دے کر مضبوط کرے۔

سینئیر صحافی ناصر بیگ چغتائی نے الیکشن کے نتائج میں تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک ریٹرننگ آفیسر کے مطابق عملے میں تربیت کا فقدان تھا۔ مختلف امیدواروں کے نشان آپس میں گڈ مڈ ہو گئے تھے، ان کی درستگی میں بھی وقت لگا اور بعض جگہوں پر الیکش تاخیر سے بھی شروع ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام کو پاکستان میں مؤثر اور ذمہ دار ہونا چاہئیے، آمریت کے دور میں بلدیاتی اداروں میں اختیارات ملے تھے۔ نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے اچھے کام کیے مگر جمہوری جماعتیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے سے ڈرتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کے لیے جلسے نہیں کیے اور کمپین بھی نہیں کی۔ پیپلزپارٹی کے لوگ ہر گلی اور محلے میں گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے تنظیم سازی کی بجائے عمران خان کی کرشماتی شخصیت پر انحصار کیا، اس لیے وہ الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کو گلی محلے کی سیاست کا علم نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے عملے کے پاس ٹرانسپورٹ کی کمی تھی، سامان کی فراہمی کے لیے 8 سکولوں کے لیے ایک گاڑی دستیاب تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں بھی نتائج میں تاخیر ہوئی کیونکہ بلاول کو ہروانے کی منصوبہ بندی میں 48 گھنٹے لگا دیے گئے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کومل بیٹھ کر کراچی کے میئر کا انتخاب کرنا چاہئیے۔ کسی پارٹی کی بھی واضح اکثریت نہیں ہے، اس لیے کراچی میں مقامی حکومت کا مخلوط سیٹ اپ آئے گا۔

پروگرام کے میزبان مرتضی سولنگی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔