'فوج اور بیوروکریسی کے اخراجات کم کیے بغیر معیشت نہیں چل سکتی'

'فوج اور بیوروکریسی کے اخراجات کم کیے بغیر معیشت نہیں چل سکتی'
آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ بجٹ خسارہ کم کیا جائے مگر پاکستان کے پاس اس خسارے کو کم کرنے کا کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف صرف اسی صورت میں مطمئن ہوگا جب پاکستان اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے پہ رضامند ہوگا اور بجٹ خسارے میں کمی فوج اور بیوروکریسی کے اخراجات کم کرنے سے ممکن ہو گی۔ فوج اور بیوروکریسی کے اخراجات پاکستان کی کمر توڑ رہے ہیں۔ ملک میں فوجی حکومت بھی آ جائے تو پھر بھی فوج اور بیوروکریسی کے اخراجات کم کرنے پڑیں گے، اس کے بغیر پاکستان کی معیشت نہیں چل سکتی۔ یہ کہنا ہے ماہر معیشت قیصر بنگالی کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے قیصر بنگالی نے کہا کہ موجودہ معاملات سیاسی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں، معیشت کے حوالے سے فیصلہ فوج اور بیوروکریسی نے کرنا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں موجود فوجی کینٹ کم کر دینے چاہئیں اور یہ زمین صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دینی چاہئیے۔ مرکزی حکومت کے اخراجات کم ہوں گے اور صوبائی حکومتیں یہ زمینیں فروخت کرکے ریونیو بھی حاصل کر لیں گی۔ 15 سے 20 وزارتوں کو ختم کر دینا چاہئیے، پوسٹ آفس جیسے غیر فعال ادارے کو بھی بند کر دینا چاہئیے۔ پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں پر پورا ٹیکس نہیں لگتا، جن انڈسٹریز کو حکومت سبسڈی دیتی ہے ان کا سٹرکچر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد تک خودکش حملہ آور تین سکیورٹی چیک پوسٹوں سے گزر کر پہنچا اور یہ سکیورٹی کی ناکامی ہے۔ حکومتیں دو عشروں سے مذمتی بیان جاری کر رہی ہیں مگر اب ٹھوس کارروائی کی ضرورت ہے۔ طالبان نے اب تک حملے کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی تاہم طالبان کے بعض حلقوں میں حملے پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے مذمتی بیان کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

صحافی شہباز رانا نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی طرح کی معاشی ابتری پہلے کبھی نہیں آئی۔ آئی ایم ایف کو پتہ ہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت تین ارب ڈالر کے اثاثے ہیں جو ایک ماہ بھی نہیں چل سکتے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو تنگ گلی میں لے جانے میں کامیاب ہو گیا ہے، اب پاکستان کو ان کی ہر بات ماننی پڑے گی۔ اس وقت پاکستان کی تمام تر توجہ ٹیکس لگانے پہ ہے مگر صرف اس سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ گیس اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کو بند کرنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں مگر صوبوں کو 42 فیصد ترقیاتی بجٹ دیا جا رہا ہے۔ حکومت ابھی مشکل فیصلے نہیں لے رہی۔

فوزیہ یزدانی نے کہا کہ عمران خان کی انا کی وجہ سے الیکشن میں بے تحاشہ پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ 33 حلقوں میں 9 ہزار سے زیادہ پولنگ سٹیشن ہوں گے، اس پر تقریباً 14 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ امیدوروں کے اخراجات تقریباً 13 کروڑ روپے ہوں گے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات الگ ہوں گے۔ تقریباً 49 ہزار افراد کا عملہ درکار ہو گا اور تقریباً 60 ہزار پولیس اہلکاروں کی ضرورت ہو گی۔ عمران خان ان 33 حلقوں میں سے ایک سیٹ اپنے پاس رکھیں گے تو باقی حلقوں کے عوام پھر بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رہیں گے۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات میں اگر مارشل لاء لگا تو پاکستان کی حالت صومالیہ جیسی ہو جائے گی۔ ڈالر لے کر ملک چلانے والا دور اب گزر چکا ہے، اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔