ترکیہ اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ، 1300 سے زائد افراد جاں بحق

ترکیہ اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ، 1300 سے زائد افراد جاں بحق
ترکیہ اور شام میں پیر کی صبح شدید زلزلے نے کئی عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے جس کے نتیجےمیں درجنوں  افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔جبکہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ترکیہ اور شام میں شدید زلزلے نے تباہی مچا دی، 7.8 شدت کے زلزلے سے متعدد عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ زلزلے کا مرکز ترکیہ سے جنوب میں غازی انٹپ صوبے کے علاقے نرداگی میں تھا، جبکہ زلزلے کی گہرائی 17.9 کلومیٹر تھی۔ ترک میڈیا کے مطابق زلزلے کے جھٹکے ایک منٹ تک محسوس کیے گئے۔

زلزلے کے آفٹر شاکس ترکیے کے وسطی علاقوں میں بھی محسوس کئے گئے، جن کی شدت 6.7 ریکارڈ کی گئی۔ آفٹر شاکس تقریباً 11 منٹ بعد محسوس کئے گئے۔

ترکیہ میں کم از کم 912 اور شام میں کم از کم 467  ہلاکتوں  کی تصدیق ہوچکی ہے اور زخمیوں کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کرگئی  ہے جبکہ  ہلاکتوں میں بڑی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

ترکیہ کے سرکاری ٹی وی کے مطابق زلزلے سے دس صوبے متاثر ہوئے۔

ترک حکام کے مطابق زلزلے کے زیادہ شدید جھٹکے ملک کے جنوب مشرقی حصے میں محسوس کیے گئے جہاں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ زلزلے سے 2818 عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ عمارتوں کے ملبے تلے دبنے والے 2470 افراد کو زندہ نکال لیا گیا ہے۔

شام میں بھی کئی عمارتیں منہدم ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم سرکاری سطح پر ان کی تعداد کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

زلزلے کے جھٹکے قبرص، یونان، اردن اور لبنان میں بھی محسوس کئے گئے۔

رک صدر رجب طیب اردگان نے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔امدادی ٹیمیں فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں مدد کے لیے پہنچ گئی ہیں۔

شدید زلزلے سے وسیع پیمانے  پر تباہی کے باعث ترک صدر نے متاثرہ علاقوں میں فوج بھیجنے کا بھی  فیصلہ  کرلیا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں زلزلے سے متاثر ہونے والے تمام شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار  کیا۔

انہوں نے کہا کہ  امید کرتا ہوں کہ ہم جلد از جلد اور کم سے کم نقصان کے ساتھ اس آفت سے نکل جائیں گے۔

واضح رہے کہ  ترکیہ کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں بہت زیادہ زلزلے  آنا معمول کی بات ہے۔

1999  میں 7.4 شدت  کے زلزلے  نے ترکیہ میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ اس زلزلے میں تقریباً 17 ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں جس میں ایک ہزار سے زائد اموات صرف استنبول میں ہوئی تھیں۔