گوادر کے عوام معاشی وسماجی استحصال کیخلاف سراپا احتجاج، مظاہرے میں ہزاروں افراد کی شرکت

گوادر کے عوام معاشی وسماجی استحصال کیخلاف سراپا احتجاج، مظاہرے میں ہزاروں افراد کی شرکت
30 ستمبر کی شام گوادر نے ایک دہائی پہلے کی یادیں تازہ کیں۔ شہدائے جیونی چوک سے لے کر تا حد نگاہ ایک عوامی سیلاب نکل آیا۔ کئی برس کی خاموشی، خوف اور ڈر کو چھوڑ کر گوادر شہر اور گردونواح کے لوگ احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئے۔

اس احتجاجی جلسے میں لاپتا افراد کی بازیابی، پانی وبجلی کی فراہمی، کے علاوہ ایک نعرے کا مزید اضافہ دیکھا گیا جو '' گوادر کی ترقی کے نام پر تذلیل نامنظور''۔

اس احتجاج کی قیادت مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کی جس کی آل پارٹیز گوادر نے مخالفت کی تھی لیکن باوجود آل پارٹیز کی مخالفت کی ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔



احتجاجی جلسے میں ہر طبقے کی لوگوں نے شرکت کی اور بقول گوادر کے سینئر صحافی سلیمان ہاشم کے کہ گوادر کے لوگ اس نظام سے تنگ تھے مگر گزشتہ کئی سالوں کے حالات نے ایک خوف اور خاموشی کا ماحول پیدا کیا تھا مگر اب وہ جمود ٹھوٹ چکا ہے اور مولانا ہدایت الرحمن وہ باتیں کر رہا ہے جو ہر گوادر کی شہری کرنا چاہتا ہے۔

مولانا ہدایت الرحمن کے اس احتجاج کا آغاز چند ماہ پہلے گوادر کوسٹل ہائی وے دھرنے سے ہوا تھا جہاں تین دن تک کوسٹل ہائی وے کو بند کرکے سمندر میں مائی گیروں کی معاشی استحصال، کوسٹ گارڈ کی مقامی گاڑیوں کو قبضہ میں لینے اور پانی و بجلی کی بندش خلاف سیکنڑوں مظاہرین کے ساتھ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے دھرنا دیا اور بعد میں کوئٹہ سے صوبائی حکومت کے نمائندے گوادر آئے اور یقین دہانیوں کے بعد احتجاج ختم کیا گیا۔



مگر گوادر کے مائی گیروں کو اب بھی شکایت ہے کہ غیر مقامی ٹرالر مافیا ممنوعہ جالوں سے سمندری نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان کا معاشی استحصال کر رہے ہیں اور انتظامیہ و سیکیورٹی کے ادارے ایکشن نہیں لیتے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کوسٹ گارڈ پر الزام لگایا کہ وہ مائی گیروں کو تنگ کرکے ایرانی اشیائے خورونوش کو ضبط کرتے ہیں مگر منشیات کو روک نہیں سکتے۔

احتجاجی جلسے میں غیر قانونی جبری گمشدگیوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ تمام لاپتا افراد کو بازیاب کیا جائے اور اگر ان پر کوئی کیسز ہیں تو انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔



اس کے علاوہ مظاہرین نے گوادر میں سیکیوریٹی چیک پوسٹوں پر عوامی تذلیل و اذیت پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ مولانا ہدایت الرحمن نے اپنے تقریر میں کہا کہ ہمارے دلوں میں آگ لگی ہوئی، ان کے مطابق وہ ان سیکیوریٹی کے نام پر بنائے گئے چیک پوسٹوں پر اپنی شناخت دکھانے کے باوجود ان سے روازانہ کئی بار پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہو؟ اور کہاں جارہے ہو؟

مظاہرین نے گوادر کی ترقی کے دعوئوں اور بیانات پر سوالات اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا بغیر سہولیات، نہ پانی نہ بجلی، نہ روزگار اور نہ عزت نفس محفوظ، کیا ترقی ایسے ہوتی ہے؟ اگر ترقی یہی ہے تو لاہور اور اسلام آباد کو ایسی ترقی کیوں نہیں دی جاتی۔



احتجاجی جلسے میں چند مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر 30 دن کے اندر یہ مطالبات پورے نہیں ہوئے تو بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا جائے گا۔ عوامی چارٹر آف ڈیمانڈ میں لاپتا افراد کی بازیابی، غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ، پانی و بجلی کی فراہمی، پاک ایران بارڈر پر تجارت کی بلا روک ٹوک اجازت اور سمندر میں غیر قانونی ٹرالر مافیا کی مکمل روک تھام کا مطالبہ کیا گیا۔ اس احجتاجی جلسے کی آخر میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ ماما قدیر بلوچ کی صحت یابی کے لئے دعا کی گئی۔

واضح رہے کہ اس احتجاجی جلسے کو گوادر کی تاریخ میں ایک دہاہی کے بعد کی سب سے بڑا عوامی جلسہ قرار دیا جارہا ہے کیونکہ 2010/11 کے حالات کے بعد جب سیاسی و طلبا رہنماؤں کے لاپتہ ہونے اور مسخ شدہ لاشیں گرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو عوامی جلسے جلوسوں میں بھی کمی آئی اگر چہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی جلسے ہوتے بھی تھے تو ان میں مقررین زیادہ اور سننے والے کم ہوتے تھے مگر اس احجاجی جلسے میں کئی سال بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔